متقین کی طبیعت میں غصہ آتا ضرور ہے مگر اُن کی تربیت اور تقویٰ اُسے ضبط کر لیتا ہے: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

غصے کو ضبط کرنا، دوسروں کو معاف کرنا اور ان پر اِحسان کرنا وہ اعلیٰ اوصاف ہیں جو متقی کے کردار کو حُسن، عظمت اور وقار عطا کرتے ہیں: شیخ الاسلام کا خطاب

متقین وہ سعادت مند لوگ ہیں جن کی زندگی تقویٰ و پرہیزگاری کے نور سے منور ومزیّن ہوتی ہے۔ ان کی سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ وہ راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، چاہے خوشحالی کا زمانہ ہو یا تنگ دستی کی گھڑی، اور اپنے مال کو فقط رضائے الٰہی کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اُن کو غصہ آتا تو ہے مگر وہ اسے ضبط کر لیتے ہیں اور حلم و بردباری سے اسے پی جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ وہ ان لوگوں کو بھی معاف کر دیتے ہیں جو ان پر ظلم و زیادتی کریں۔ متقین جب دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں تو معاف کرنے کے بعد اُن کے دلوں میں کوئی کینہ یا انتقام باقی نہیں رہتا۔ پھر اس سے بھی بلند مقام پر پہنچ کر وہ دوسروں پر احسان کرتے ہیں، بھلائی اور نیکی کا برتاؤ اختیار کرتے ہیں۔ یہی وہ صفات ہیں جو ایک متقی کے وجود کو مزین کرتی ہیں اور اسے مخلوقِ خدا کے لیے باعثِ رحمت اور خالقِ کائنات کے نزدیک محبوب و مقرب بنا دیتی ہیں۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے متقین کی صفات کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

﴿الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ﴾

(سورة آل عمران، 3/134)

’’یہ وہ لوگ ہیں جو فراخی اور تنگی (دونوں حالتوں) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (ان کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے‘‘

اللہ رب العزت نے اس آیت میں متقین کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ سب سے پہلے فرمایا کہ وہ لوگ راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، چاہے پوشیدہ طور پر ہو یا اعلانیہ، خوشحالی میں ہو یا تنگ دستی میں۔ پھر ان کی ایک اور صفت یہ بیان کی کہ وہ اپنے غصے کو پی جاتے ہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ وہ لوگوں کی زیادتی کو بھی معاف کر دیتے ہیں۔ اور آخر میں اُن کا یہ عظیم درجہ بتایا کہ وہ دوسروں پر احسان کرتے ہیں، اور فرمایا: وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ اور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

متقین کی صفات کے درجات:

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے متقین کی صفات کے مختلف درجات بیان کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں متقین کی تین الگ الگ صفات بیان کی ہیں۔ سب سے پہلا درجہ یہ بتایا کہ وہ اپنے غصے کو پی جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کوئی ایسی بات یا صورتحال سامنے آتی ہے جو غصہ دلانے والی ہو تو ان کے دل میں فطری طور پر غصہ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کہ وہ غصہ زبان یا عمل کے ذریعے ظاہر ہو، وہ اُس غصے کو ضبط کر لیتے ہیں اور اپنے اندر ہی دبا دیتے ہیں۔ گویا اُن کو غصہ آتا ضرور ہے، مگر چونکہ انہوں نے اپنی تربیت اور ریاضت اس نہج پر کی ہوتی ہے کہ وہ اپنے غصے پر قابو پا لیتے ہیں۔ یہی تقویٰ کی پہلی بڑی علامت ہے کہ متقی انسان غصہ آنے کے باوجود اسے ظاہر نہیں کرتا بلکہ برداشت کر جاتا ہے۔

یہ متقین کی صفات کا پہلا درجہ ہے یعنی وہ غصے کو اظہار ہی نہیں کرتے۔ اس کے بعد اس سے اوپر کا درجہ بیان کیا فرمایا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ غصے کو ضبط کر لینا ہی آخری کمال نہیں اس کے بعد عین ممکن ہے کہ ضبط کرنے کا مطلب یہ ہے کہ غصے کا اظہار نہ کریں، یعنی زبان یا عمل سے کوئی سخت بات نہیں کہتے، نہ ہی انتقام لیتے ہیں اور نہ برائی کا جواب برائی سے دیتے ہیں۔

یہ کیفیت "كَظمُ الغَيْظ" ہے، یعنی غصے کو پی جانا۔ لیکن اس سے بھی بلند درجہ یہ ہے کہ وہ صرف غصے کو پی نہیں جاتے بلکہ لوگوں کو معاف بھی کر دیتے ہیں۔ جب انسان کسی کو معاف کر دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دل میں موجود غصہ اور ہیجان بھی ختم ہو جاتا ہے، اضطراب باقی نہیں رہتا اور طبیعت پوری طرح سکون پا لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم میں فرمایا گیا: "وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ" یعنی متقین وہ ہیں جو دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اور پھر فرمایا: "وَاللّٰهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ" کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہے جو محض معاف ہی نہیں کرتے بلکہ احسان کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ یہی معاف کر دینے اور بھلائی کرنے کا رویہ در اصل "حِلم" کہلاتا ہے۔

حاصلِ کلام:

تقویٰ کی اصل روح یہ ہے کہ انسان کے اخلاق و اعمال میں بلندی اور پاکیزگی جھلکے۔ متقی بندے کی زندگی اس طرح کے اوصاف سے مزین ہوتی ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، چاہے تنگی ہو یا فراخی۔ جب غصہ آتا ہے تو وہ ضبط و صبر سے اسے دبا لیتا ہے اور اپنے عمل و گفتار میں اس کا اظہار نہیں کرتا۔ یہ پہلا درجہ ہے۔ لیکن کمال کی اگلی منزل یہ ہے کہ وہ دوسروں کی زیادتیوں کو درگزر کر دیتا ہے اور دل سے معاف کر کے کینہ و انتقام کو ختم کر دیتا ہے۔ اور سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ وہ معافی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ احسان کے ساتھ بھلائی کا سلوک کرتا ہے۔ یہی وہ صفات ہیں جو ایک متقی وپرہیزگار انسان کو نہ صرف لوگوں کے لیے رحمت اور سکون کا سبب بناتی ہیں بلکہ اسے اللہ تعالیٰ کی محبت اور قرب کا مستحق بھی قرار دیتی ہیں۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top