ایمان سب سے قیمتی نعمت ہے، اور اِس عظیم نعمت کا وسیلہ محبتِ رسول ﷺ ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

مؤمن ہونے کا کُل دار و مدار محبتِ رسول ﷺ پر ہے: صدر منہاج القرآن

محبتِ رسول ﷺ محض زبانی دعویٰ نہیں بلکہ ایک زندہ حقیقت ہے جس کی علامات انسان کی زندگی میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس محبت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنی سوچ، کردار اور طرزِ عمل کو سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق ڈھالے۔ محبتِ رسول ﷺ کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کو ہر شے پر مقدّم رکھے، آپ ﷺ کی سیرت سے رہنمائی حاصل کرے، اور آپ ﷺ کے اخلاقِ کریمہ کو اپنی زندگی کی زینت بنائے۔ عملی طور پر یہ محبت تب ثابت ہوتی ہے جب مسلمان اپنی گفتگو میں صدق و امانت، اپنے معاملات میں عدل و انصاف اور اپنی عبادت میں اخلاص پیدا کرے۔ یہی محبتِ رسول ﷺ کی اصل روح اور ایمان کی تکمیل ہے۔

سب سے قیمتی نعمت کیا ہے؟

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔ ان میں اچھی صحت، رزق میں کشادگی، اولاد، عزت و شہرت، گھر بار، علم اور صحت مند زندگی سب شامل ہیں۔ یہ سب نعمتیں اپنی جگہ بہت قیمتی ہیں، مگر اِن سب سے بڑھ کر سب سے قیمتی نعمت جو اللہ نے انسان کو عطا کی ہے، وہ ایمان ہے۔ اور ایمان جیسی عظیم نعمت ملنے کا ذریعہ محبتِ رسول ﷺ ہے۔ دراصل ایمان تب ہی مکمل ہوتا ہے جب انسان ہر شے سے بڑھ کر حضور نبی اکرم ﷺ سے محبت کرے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ۔

بخاري، الصحيح، ج1، ص 14، رقم: 14

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ تم میں سے کوئی بھی اُس وقت تک ایمان والا نہ ہو گا جب تک میں اُس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں ‘‘

ایک اور مقام پر حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔

بخاري، الصحيح، ج1، ص 14، رقم: 15

’’تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے‘‘

جب تک رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت نہ کی جائے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی تکمیل نہیں ہوتی۔

ایمان کی تکمیل اور نظامِ حیات کی بنیاد جذبۂ محبت ہے:

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: اب سوال یہ ہے کہ محبت کا جذبہ اتنا ضروری کیوں ہے؟ یہ نظام اس کے بغیر کیوں نہیں چل سکتا؟ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی تکمیل کے لیے بھی محبت کو لازمی قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا محبوب بننا اور اس سے محبت کرنا کیوں اتنا اہم ہے؟ کیا تعلق کی بنیاد کوئی اور جذبہ نہیں ہو سکتا؟ تعلق کی اصل بنیاد محبت ہی کیوں ہے؟ اس کا جواب ہمیں خود انسانی فطرت سے ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی پوری تخلیق کو دو بنیادی جذبوں پر قائم کیا ہے: ایک جذبۂ محبت اور دوسرا جذبۂ نفرت۔ دنیا کی ہر چیز انہی دو پر گھومتی ہے۔ محبت تعمیری جذبہ ہے جبکہ نفرت تخریبی جذبہ۔

ڈاکٹر حسین محی الدین نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: اَب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق میں محبت کا جذبہ تو سمجھ میں آتا ہے، لیکن نفرت کا جذبہ کیسے جڑتا ہے؟ آخر اللہ تعالیٰ نے نفرت کیوں پیدا کی؟ عربی کا مقولہ ہے: "ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔" حقیقت میں اصل جذبہ محبت ہی ہے، لیکن اس محبت کی قدر اور اس کا احساس دلانے کے لیے اللہ نے اس کی ضد یعنی نفرت کو بھی پیدا فرمایا۔ تاکہ جب نفرت کے اندھیرے میں محبت کا چراغ روشن ہو تو محبت کی اصل پہچان ہو سکے۔ گویا نفرت کا وجود دراصل محبت کی قدر سمجھانے کے لیے ہے۔

محبتِ رسول ﷺ کے عملی تقاضے:

ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے محبتِ رسول ﷺ کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے عشق کیا جائے۔ جب کوئی انسان اُس درجہ پر اپنے تعلق کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جوڑ لیتا ہے تو تبھی ایمان کا حق ادا ہوتا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺ کی محبت پر دنیوی محبتوں کو قربان نہ کرنے پر وعید بیان فرمائی۔

(قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ)

(سورة التوبة، 9/24)

’’(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا ‘‘

اس آیت میں صریحًا تقاضا ہے دعوئے محبت کا۔ کوئی اور عمل اُس کے ہم پلّہ نہیں ہے۔ اِسی طرح حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنی محبت کو مؤمنین پر غالب کرنے کے حوالے سے فرمایا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ۔

بخاري، الصحيح، ج1، ص 14، رقم: 15

’’تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہ ہو گا جب تک اس کے والدین اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے‘‘

اس حدیث کی روشنی میں آقا ﷺ نے مؤمن ہونے کا کُل دار و مدار اپنی محبت پر رکھ دیا۔ یہاں نہ حج کی بات کی، نہ زکوۃ کی بات کی، نہ نماز اور روزہ کی بات کی۔ اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ یہ اعمال سے چھوٹ ہے۔ اگر یہ اعمال نہیں ہیں تو دعوائے محبت جھوٹا ہے۔ لیکن ایک شے کا ذکر کیا وہ یہ ہے کہ مجھ سے ٹوٹ کر محبت کرو۔

حاصلِ کلام:

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، مگر ان سب میں سب سے عظیم اور قیمتی نعمت ایمان ہے، اور ایمان کی تکمیل محبتِ رسول ﷺ کے بغیر ممکن نہیں۔ حقیقی ایمان اسی وقت کامل ہوتا ہے جب حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت سب دنیوی رشتوں اور تعلقات پر غالب آ جائے۔ دراصل اللہ نے کائنات کو محبت اور نفرت کے دو بنیادی جذبات پر قائم کیا ہے؛ محبت تعمیری قوت ہے اور نفرت کو اسی لیے پیدا کیا گیا تاکہ محبت کی قدر اور حقیقت پہچانی جا سکے۔ اس تناظر میں ایمان کا جوہر محبتِ رسول ﷺ ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ایمان کی بنیاد اور معیار عشقِ مصطفی ﷺ ہے، اور یہ محض زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی زندگی میں اطاعت، سنت کی پیروی، اخلاقِ نبوی کو اپنانے اور ہر شے پر نبی کریم ﷺ کی محبت کو مقدم رکھنے سے ثابت ہوتا ہے۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top