جب کسی شخص میں حِلم اور بردباری نہیں ہوتی تو اُس کی عقل کا چراغ بجھ جاتا ہے: شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
حِلم کے بغیر علم، فتنہ و تکفیریت کا سبب بنتا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب
علم اور حلم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ علم انسان کو حق اور باطل میں فرق سکھاتا ہے، لیکن حلم اس علم کو وقار، سکون اور حکمت کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ جس علم کے ساتھ حلم نہ ہو، وہ تیزی، شدّت اور تکفیریت کا شکار ہو جاتا ہے، اور جس حلم کے ساتھ علم نہ ہو، وہ کمزوری اور بے عملی میں بدل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم انسان کو بلندی دیتا ہے اور حلم اس بلندی کو استقامت اور حسنِ اخلاق سے مزین کرتا ہے۔ جب یہ دونوں اوصاف جمع ہو جائیں تو انسان کو کامل بنا دیتی ہیں۔
علم اگر حلم اور بردباری کے زیور سے آراستہ نہ ہو تو وہ روشنی کے بجائے آگ بن جاتا ہے۔ ایسا علم انسان کو تواضع و حکمت کی راہ پر ڈالنے کی بجائے تکبر، دوسروں کو حقیر سمجھنا اور فتوے بازی کی طرف مائل کرتا ہے۔ پھر وہی شخص دوسروں پر کفر و شرک کے فتوے لگاتا ہے، امت کو ٹکڑوں میں بانٹتا ہے اور نفرت و انتشار کو ہوا دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حلم، علم کے لیے ایسے ہے جیسے خوشبو پھول کے لیے۔ جب حلم نہ ہو تو علم اپنی اصل روح کھو دیتا ہے اور عقل کا چراغ بجھ کر تاریکی میں بدل جاتا ہے۔
حلم کے بغیر علم، فتنہ و تکفیریت کا سبب بنتا ہے:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے علم اور حلم کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: علم، حلم اور بردباری کے بغیر نامکمل ہے۔ اگر کسی کے پاس علم تو ہو لیکن اس کے پاس حلم اور برداشت نہ ہو تو وہ لوگوں پر فتوے لگائےگا۔ کبھی کسی کو کافر کہے گا، کبھی مشرک، کبھی بدعتی، کبھی گمراہ، اور کبھی کسی کو اسلام یا اہلِ سنت یا پوری امتِ مسلمہ سے خارج کرے گا۔ یعنی اس کا سارا زور تکفیریت پر ہوگا۔ وجہ یہ ہے کہ اس کے علم میں حلم شامل نہیں۔ اور جب حلم اور بردباری نہ ہو تو انسان کی عقل کی روشنی بجھ جاتی ہے۔
حلم کے بغیر لوگوں میں جنم لینے والی بیماریاں:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حلم کے متعلق مزید توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: حلم ہی اصل میں عقلمندی ہے۔ جس کے پاس حلم نہیں، وہ گویا عقل سے خالی ہے۔ جہاں عقل مغلوب ہو جائے، وہاں جہالت غالب آ جاتی ہے، اور جہالت سے فساد، بغض اور عناد جنم لیتے ہیں۔ اگر علم کو حلم کے بغیر استعمال کیا جائے تو اس کے نتیجے میں انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے، اور رویوں اور مزاجوں سے اعتدال و وسطیت ختم ہو جاتی ہے۔ آج کے دور میں سب سے مشکل کام لوگوں کو دین کی طرف بلانا اور انہیں راہِ اعتدال پر لانا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے رویّوں کی وجہ سے لوگ دین سے دور ہو گئے ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل دین کی طرف رغبت کھو بیٹھی ہے۔ جو چند لوگ دین کی طرف آتے بھی ہیں، اگر انہیں علم رکھنے والا یا علم کا دعویٰ کرنے والا شخص حلم اور بردباری کے بغیر درس دے یا تقریر کرے، چاہے وہ مدرسے میں ہو، مسجد کے منبر پر، یوٹیوب یا فیس بک پر، ٹی وی چینل یا ذاتی پلیٹ فارم پر، یا کسی بھی مجلس میں ہو، تو وہ اپنے فتوی کے ذریعے لوگوں کے دلوں سے برداشت، اعتدال اور وسطیت ختم کر دیتا ہے۔
شیخ الاسلام نے مزید کہا کہ حلم کے فقدان کے باعث لوگ فورًا دوسروں کی تذلیل اور تکفیر کرنے لگتے ہیں، تشدد پر اُکساتے ہیں، گروہ بندی اور تفرقہ پھیلاتے ہیں۔ یہ سب کچھ صرف حلم کے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، کیونکہ لوگوں میں صبر، برداشت اور تحمل نہیں ہے، بلکہ عجلت اور سختی ہے۔ یہ بیماریاں اور تباہ کاریاں علم رکھنے والوں میں بھی ملتی ہیں اور جاہلوں میں بھی۔ اگر اہلِ دین کے پاس حلم نہ ہو تو اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ علم بدنام ہوتا ہے، دین بدنام ہوتا ہے اور علما بھی بدنام ہو جاتے ہیں۔
حاصلِ کلام:
علم تبھی حقیقی روشنی اور ہدایت بن سکتا ہے جب اس کے ساتھ حلم اور بردباری شامل ہو۔ اگر حلم رخصت ہو جائے تو علم کے ثمرات بھی زائل ہو جاتے ہیں اور وہ رہنمائی کے بجائے شدت پسندی، تکفیریت اور تفرقہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ حلم انسان کے علم کو توازن، حکمت اور وقار بخشتا ہے، ورنہ وہ تکبر، تعصب اور انتشار میں ڈھل جاتا ہے۔ دراصل حلم ہی عقل کی علامت اور اخلاق کی جان ہے۔ اسی کے ذریعے دین کا حُسن برقرار رہتا ہے، علماء کی عزت محفوظ رہتی ہے اور امت کے اندر اتحاد، برداشت اور اعتدال کی فضا قائم ہوتی ہے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ