رسول اللہ ﷺ کی ذات سراپا رحمت، شفقت اور نجات کا وسیلہ ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
رسول اللہ ﷺ کی ایک نگاہ سے آخرت کی نجات کا حصول: صدر منہاج القرآن
حضور نبی اکرم ﷺ کا وسیلہ دراصل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے بلند اور معتبر ذریعہ ہے۔ قرآن و سنت سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کو تمام مخلوقات پر شرف و فضیلت عطا فرمائی اور آپ ﷺ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ امت کے لیے سب سے بڑا وسیلہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس ہے، جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ ﷺ کے وسیلہ سے دعائیں کرتے اور مشکلات میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ ﷺ کا واسطہ پیش کرتے تھے۔ وسیلۂ مصطفیٰ ﷺ کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی حاجات، دعاؤں اور نجات کے لیے آپ ﷺ کی محبت، اطاعت اور نسبت کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کریں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود آپ ﷺ کی عزت و مقام کو اپنی رحمت و قبولیت کا ذریعہ بنایا ہے۔
بچوں پر شفقت اور عبادت میں نرمی
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنِّي لَأَدْخُلُ الصَّلَاةَ أُرِيدُ إِطَالَتَهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأُخَفِّفُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ بِهِ.
مسلم، الصحيح، ج1، ص 343، رقم: 470
’’میں نماز شروع کرتا ہوں، میرا ارادہ لمبی نماز (پڑھنے) کا ہوتا ہے، پھر بچے کا رونا سنتا ہوں تو بچے پر ماں کے غم کی شدت کی وجہ سے (نماز میں) تخفیف کر دیتا ہوں۔‘‘
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت انسؓ ہی روایت کرتے ہیں کہ:
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ يَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ مَعَ أُمِّهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ فَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ الْخَفِيفَةِ أَوْ بِالسُّورَةِ الْقَصِيرَةِ.
مسلم، الصحيح، ج1، ص 343، رقم: 470
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم ماں کے ساتھ (آئے ہوئے) بچے کا رونا سنتے اور آپ نماز میں ہوتے تو ہلکی سورت یا (کہا) چھوٹی سورت پڑھ لیتے۔‘‘
ان دونوں احادیث سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ بچوں کے لیے رحم و شفقت کا مظاہرہ کرنا سنتِ نبی ﷺ ہے اور عبادت میں بھی دوسروں کی تکلیف سے بچنا اور نرمی اختیار کرنا اہم ہے۔ یہ حضور نبی اکرم ﷺ کی شانِ رأفت و محبت اپنی امت کے لیے ہے کہ آپ ﷺ کو بچے کا رونا بھی گوارا نہیں تاکہ اُس کے رونے سے اُس بچے کی والدہ پریشان نہ ہو۔
رسول اللہ ﷺ کا وسیلہ اور راہِ نجات
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے اپنے خطاب میں وسیلہ کے متعلق بیان کیا کہ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ:
كَانَ غُلَامٌ يَهُودِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ فَمَرِضَ فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ يَعُودُهُ فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ فَقَالَ لَهُ أَسْلِمْ فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَهُ فَقَالَ لَهُ أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ فَأَسْلَمَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وآلہ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ مِنَ النَّارِ.
بخاری، الصحیح، ج1، ص 455، رقم: 1290
’’ایک یہودی لڑکا (عبدالقدوس) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، ایک دن وہ بیمار ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عیادت کرنے کے لیے اُس کے گھر تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا: کہ مسلمان ہو جاؤ۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا، اُس کا باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ (کیا مضائقہ ہے) ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لو۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ (جیسے ہی اُس نے کلمہ پڑھا اُس کی روح اُس کے جسم سے پرواز کر گئی) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو میرے وسیلے سے جہنم سے بچا لیا‘‘
یہ شانِ رأفت ہے کہ وہ لڑکا اپنی پوری زندگی اپنے مذہب پر رہا لیکن رسول اللہ ﷺ نے اُس پر یوں کرم فرمایا کہ اُس کی آخرت سنوار دی۔
حاصلِ کلام
رسول اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ آپ ﷺ کی ذات سراپا رحمت، شفقت اور نجات کا وسیلہ ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف عبادت میں دوسروں کی راحت اور آسانی کا خیال رکھا بلکہ ایک بچے کے رونے پر بھی نماز کو مختصر فرما دیا تاکہ اس کی ماں کو اذیت نہ ہو۔ اسی طرح آپ ﷺ کی رحمت کا مظہر یہ بھی ہے کہ ایک یہودی لڑکے کی زندگی بھر کی محرومی کو ایک لمحے میں ایمان سے مزیّن کر دیا اور اسے جہنم سے نجات دلا کر جنت کا حق دار بنا دیا۔ گویا آپ ﷺ کا وجود امت کے لیے سب سے بڑا سہارا اور اللہ کی بارگاہ میں سب سے بلند وسیلہ ہے، جس کے ذریعے دنیا کی راحت اور آخرت کی نجات دونوں حاصل ہوتی ہیں۔
تبصرہ