رسول اللہ ﷺ کا اَدب وہ نازک اور لطیف جذبہ ہے جو حدود و قیود کا محتاج نہیں: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
رسول اللہ ﷺ کی عظمت کا اِدراک انسانی عقل سے بالا تر ہے اور آپ ﷺ کے ادب و احترام کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی: شیخ الاسلام کا خطاب
ادبِ مصطفیٰ ﷺ وہ نازک اور لطیف جذبہ ہے جو حدود و قیود کا محتاج نہیں بلکہ عشق و محبت کی وسعتوں میں ڈوبا ہوا ایک نورانی احساس ہے۔ اگر کوئی شخص ادبِ رسول ﷺ کو عقل کی ترازو میں تول کر محدود کر دے، تو درحقیقت وہ اس ادب کی روح کو سمجھ ہی نہیں سکا۔ نبی کریم ﷺ کی شان بلند و بالا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے خود ﴿وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ﴾ فرما کر بلند کیا، اس لیے کسی بندے کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس عظمت کو ناپنے کی کوشش کرے۔ جو ادب عقل کے دائرے میں سمانے لگے، وہ عشق سے خالی ہوتا ہے۔ سچا ادب وہی ہے جو حدوں سے آزاد ہو کر محبت کی معراج کو چھو لے۔
اَدبِ مصطفیٰ ﷺ کا تقاضا اور حدود:
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضور نبی اکرم ﷺ کی شان سے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت حد کے اندر رہے تو ناقص ہے۔ والدین کی محبت حد کے اندر ہے، اس لیے اُن کا اَدب بھی حد کے اندر ہے۔ بڑوں اور بزرگوں کی محبت حد کے اندر ہے، اس لیے اُن کا ادب بھی ایک حد کے اندر ہے۔ کوئی ماتحت اپنے اَفسر کا ادب کرتا ہے، یہ معلوم نہیں کہ وہ اَدب کرنے کے ساتھ اپنے افسر سے محبت بھی کرتا ہے یا نہیں۔ اُس کا احترام حدود و قیود کے اندر رہ کر کرتا ہے۔ اگر رعایا نیک اور صالح حکمران کا ادب واحترام کرتے ہیں، اُس کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں، وہ بھی حد کے اندر ہے۔ آپ اَدب کی حدود بڑھاتے چلے جاتے ہیں، مگر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ ایسی ہے کہ اس کی محبت اور اس کے ادب کی شرط یہ ہے کہ اگر اَدب حد کے اندر رہے تو بے ادہی ہے۔ بعض لوگوں کو یہ مغالطہ لگتا ہے جس کو میں واضح کر دیتا ہوں۔ اگر رسول اللہ ﷺ کا اَدب حد کے اندر ہو تو یہ بے ادبی ہے۔ اس لیے کہ ایک مسلمان جس نے نبی ﷺ کا کلمہ پڑھ لیا ہے اور آپ ﷺ کو رسول مان لیا، تو بے ادبی کیوں کرے گا؟ تو پھر مسلمان کے لیے بے ادبی کیا ہوئی؟ قرآن اس کے متعلق بیان کرتا ہے، اے ایمان والو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا: اے ایمان والو! رسول ﷺ کے ادب کا عالم یہ ہے کہ جب تمہیں کوئی بات دوبارہ سمجھنی پڑے تو یہ نہ کہا کرو کہ حضور ﷺ بات کو دہرانے کے لیے ہمارے اوپر رعایت فرمائیں۔ بلکہ یہ کہا کرو: یا رسول اللہ ﷺ، ہمارے حال پہ نظرِ کرم فرمائیں۔
شیخ الاسلام نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مخاطب کرنے کے لیے راعِنا کی جگہ اُنْظُرْنَا لگا کر لفظ تبدیل فرما دیا۔ کیونکہ منافقین رَاعِنا کے لفظ سے سوءِ اَدب اور بے اَدبی کا مفہوم لیا کرتے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کو مسلمانوں کے لیے بھی منع فرما دیا جس میں رسول اللہ ﷺ کے اَدب کی کمی یا گستاخی کا معمولی سا اِمکان (شائبہ) بھی ہو۔ ایک بندۂ مؤمن یہ تصور بھی نہیں کر سکتا جس نے حضور نبی اکرم ﷺ کا کلمہ پڑھا اور دل و جان سے حضور نبی اکرم ﷺ کے ساتھ محبت کرتا ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کی بے اَدبی کرے۔
حاصلِ کلام:
ادبِ مصطفیٰ ﷺ محض رسمی تعظیم نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اُٹھنے والا ایک لطیف جذبہ اور عشق ہے، جو کسی محدود پیمانے یا منطقی دائرے میں قید نہیں کیا جا سکتا۔ رسول اللہ ﷺ کی عظمت ایسی بلند ہے کہ اُس کا ادراک انسانی عقل سے بالا تر ہے، اور اسی لیے اس بارگاہ میں ادب و احترام کی کوئی حد مقرر نہیں کی جا سکتی۔ دنیا کے ہر رشتے کا احترام کسی نہ کسی حد میں ہوتا ہے، مگر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت اور ادب کا پیمانہ ہی یہ ہے کہ اگر وہ حد کے اندر رہے تو ناقص ہو جاتا ہے۔ قرآنِ کریم نے بھی ایسے الفاظ سے روکا جو بظاہر عام تھے لیکن بارگاہِ رسالت کے اَدب کے منافی تھے۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ