بغیر دلیل بات نہ ماننے والے جب خود دلیل کے بغیر بات منوائیں، تو یہ علم نہیں فریب ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

دین دلیل سے ہے، نہ کہ دعووں اور جذبات سے، اولیاء اللہ کی عزت، محض عقیدت نہیں بلکہ ایمان کا تقاضا ہے: شیخ الاسلام کا خطاب

سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، جنہیں دنیا ’’غوث الاعظم‘‘ کے القابات سے یاد کرتی ہے، اسلام کی روحانی تاریخ کا وہ درخشاں مینار ہیں جن کی علمی، روحانی اور اخلاقی عظمت پر نہ صرف اہلِ سنت کا اتفاق ہے، بلکہ اہلِ دل آج بھی اُن کے فیض سے سیراب ہوتے ہیں۔ افسوس کہ کچھ نام نہاد محققین، جو نہ قرآن کی عربی جانتے ہیں، نہ حدیث کو مانتے ہیں، نہ کسی معتبر تفسیر سے واقف ہیں، وہ صرف تراجم کے سہارے دین کی تشریح کے دعویدار بن بیٹھے ہیں۔ ایسی ہی ایک گمراہ کن کوشش کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے طالبِ علمی کے زمانے میں خود دیکھا، جب ایک خود ساختہ عالم نے نہایت گستاخانہ اور من گھڑت واقعے کے ذریعے حضرت غوث الاعظمؒ کی شان کو مجروح کرنے کی کوشش کی، اور دعویٰ کیا کہ یہ سب لوگوں کے عقیدے کی کتابوں میں لکھا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے علمی انداز میں اُس شخص سے حوالہ مانگا، مگر جب تین بار پوچھنے پر بھی کوئی دلیل نہ ملی، تو علم کے دعووں کی حقیقت خود بخود عیاں ہو گئی۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دین دلیل سے ہے، نہ کہ دعووں اور جذبات سے؛ اور یہ کہ اولیاء اللہ کی عزت، محض عقیدت نہیں بلکہ ایمان کا تقاضا ہے۔

غوث الاعظمؒ کا مقام اور جعلی محقق کی گمراہ کن کہانی

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی کی طرف منسوب کیے گئے جھوٹے واقعہ کی توضیح کرتے ہوئے کہا کہ: پہلے لوگ علم و فن کے ماہر تھے۔ پھر ایک زمانہ ہم نے دیکھا کہ صرف اردو کتابوں اور تراجم والی کتابوں کے ذریعے لوگ امام، عالم اور امت کے پیشوا بن گئے۔ پھر وہ دین میں اپنی رائے قائم کرنے لگے اور لوگ اُن کی پیروی کرنے لگ گئے۔ اس کے بعد وہ بھی زمانہ آگیا کہ لوگوں کو اردو بھی درست نہیں آتی۔ اب انگریزی ترجمے پڑھ کر مفتی اور مجتہد بن گئے ہیں۔

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ میرا ایم۔اے کا زمانۂ طالب علمی تھا اور یہ 1971 یا 1972 کی بات ہے۔ ميں کسی کے متعلق سُن کر اپنی رائے قائم نہیں کرتا۔ یا تو میں کسی کو ڈائریکٹ سُن کر رائے قائم کرتا ہوں یا کسی کو پڑھ کر رائے قائم کرتا ہوں۔

اتوار کو چھٹی ہوتی تھی، میں اور میرے چند کلاس فیلوز ایک نام نہاد محقق کا درسِ قرآن سننے جایا کرتے تھے۔ میں کئی ہفتے براہ راست اُن کے درس قرآن میں شریک ہوا تاکہ میں خود اُن کو سنوں کہ اُن کا عقیدہ کیا ہے؟ اُن کی مجلس میں لوگوں نے صرف انگلش ترجمہ کے قرآن اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوتے تھے اور اُن کو اوپر سے دیکھ کر قرآن پڑھنا بھی نہیں آتا تھا۔ یعنی قرآنِ مجید کی عربی تلاوت بھی نہیں کرنا جانتے تھے، لیکن اُن کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم صرف قرآن کو مانتے ہیں، حدیث کو نہیں مانتے۔ وہ حجیتِ حدیث و سنت کے منکر تھے۔

قرآن کو ماننے کے دعوے داروں کی حقیقت، شیخ الاسلام کا ذاتی مشاہدہ

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ: بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ صرف قرآن کو مانتے ہیں اور باقی کسی چیز کو نہیں مانتے، نہ حدیث، نہ سنت، نہ تفاسیر، اور نہ ہی کسی امام یا مفسر کی رائے کو۔ میں نے اپنی طالب علمی کے دور (1971–73) میں خود ایسے ایک شخص کے درسِ قرآن میں کئی ہفتے شرکت کی، تاکہ براہ راست سن سکوں کہ اُن کا عقیدہ کیا ہے۔

میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ درس میں بیٹھنے والوں کے پاس قرآنِ مجید کا اصل عربی متن نہیں ہوتا تھا، بلکہ صرف انگریزی ترجمہ ہوتا تھا۔ پھر ایک دن درس کے دوران، وہ شخص سامعین سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ: کچھ لوگ اتنے جاہل ہو چکے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی کو ’’غوث الاعظم‘‘ اور ’’پیرانِ پیر دستگیر‘‘ کہتے ہیں۔ اس کے بعد اُس نے ایک نہایت عجیب اور مَن گھڑت واقعہ سنایا جس میں شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی شان کو براہ راست نشانہ بنایا گیا، اور کہا کہ یہ واقعہ ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔

اب آپ خود سوچئے؛ جنہیں قرآن کا عربی متن پڑھنا بھی نہیں آتا، جو حدیث اور سنت کو حجت نہیں مانتے، اور جنہوں نے کبھی کسی مستند تفسیر کی شکل تک نہیں دیکھی، وہ نہ صرف قرآن کا مطلب خود گھڑ رہے ہیں بلکہ اولیاء اللہ کی شان میں گستاخیاں کر کے یہ تأثر دے رہے ہیں کہ یہ سب تحقیق ہے۔

یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے اور کسی سنی سنائی بات پر مبنی نہیں۔ علم اور تحقیق کے دعوے داروں کی حقیقی علمی حالت اگر دیکھنی ہو، تو ان جیسے لوگوں کو سن لیجیے۔

درسِ قرآن کے دوران اُس شخص نے، جو خود کو بڑا محقق اور صرف قرآن کا ماننے والا ظاہر کرتا تھا، ایک انتہائی افسوسناک اور من گھڑت واقعہ بیان کیا۔ وہ کہنے لگا: ایک بزرگ تھے، شیخ عبدالقادر جیلانی، جنہیں لوگ ’’غوث الاعظم‘‘ اور ’’دستگیر‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی کتابوں میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ ایک دن وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ عرش پر چہل قدمی کر رہے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ باتیں کرتے کرتے عرش کے کنارے پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ کا پاؤں پھسل گیا اور وہ نیچے گرنے لگے، تو شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے انہیں مضبوطی سے تھام لیا اور دوبارہ عرش پر کھینچ لیا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: اے عبدالقادر! تُو میرا بندہ ہے، لیکن آج سے تُو میرا بھی ’’دستگیر‘‘ (یعنی میرا ہاتھ پکڑنے والا) بن گیا ہے۔

یہ سن کر میں چونک گیا۔ کیونکہ یہ نہ صرف حضرت غوث الاعظمؒ کی توہین تھی بلکہ خالص کفر و گمراہی پر مبنی کہانی تھی، جو اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس کے بارے میں بھی شرکیہ باتیں بیان کر رہی تھی۔

میں نے فورًا ایک پرچی لکھ کر ان کے پاس بھجوائی اور کہا کہ: آپ نے جو واقعہ بیان کیا ہے، براہ کرم اس کا حوالہ دیں۔ یہ کس کتاب میں لکھا ہے؟

انہوں نے پرچی پڑھی، بغیر جواب دیے ایک طرف رکھ دی، اور درس جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد میں نے دوسری چٹ بھیجی، اس بار زیادہ وضاحت کے ساتھ: آپ نے یہ واقعہ سنایا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ یہ اُن کی ’’عقیدے کی کتابوں‘‘ میں لکھا ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس عقیدے کے حامل لوگوں کو آپ نے کافر، بے ایمان، اور جہنمی تک کہہ دیا۔ کم از کم ایک مستند حوالہ ہی دے دیں تاکہ بات واضح ہو۔ انہوں نے وہ چٹ بھی پڑھی، اور پھر خاموشی سے رکھ دی۔ جواب دینا گوارا نہ کیا۔ میں نے تیسری بار چٹ بھیجی، لیکن رویہ وہی رہا۔

علم کا دعویٰ اور دلیل سے فرار: شیخ الاسلام کا ذاتی مشاہدہ

شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ: جب درسِ قرآن ختم ہوا، تو میں نے موقع غنیمت جانا۔ چونکہ اجتماع زیادہ بڑا نہ تھا، اس لیے میں اپنے پانچ چھے ساتھیوں کے ساتھ اُس صاحب کے قریب پہنچ گیا۔میں نے نہایت ادب سے کہا:

آپ سے ایک سوال ہے، آپ ہمیں اب بغیر جواب دیے نہیں جا سکتے۔ جو واقعہ آپ نے غوث الاعظمؒ کے حوالے سے بیان کیا، براہ کرم اس کا حوالہ بتا دیں، یہ کس کتاب میں لکھا ہے؟

انہوں نے شاید یہ سمجھا کہ میں بھی اُن کے ماننے والوں میں سے ہوں۔ میرا تعارف تو تھا نہیں، فقط ایک نوجوان طالبعلم کے طور پر اُن کا درس سننے والا۔ اُن کا انداز قدرے رعونت بھرا تھا، کہنے لگے:

آپ کو حوالے کی کیا ضرورت ہے؟ جو میں نے کہہ دیا، وہی کافی ہے۔ میری بات ہی حوالہ ہے۔ میں نے وہیں ان کی بات کا رخ موڑتے ہوئے کہا:

میں پچھلے تین چار ہفتوں سے آپ کے درسِ قرآن میں باقاعدگی سے شریک ہو رہا ہوں۔ آپ کی تمام باتوں کا نچوڑ یہی ہے کہ بغیر دلیل کسی کی بات نہیں مانی جا سکتی، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث بھی اگر قرآن کے ساتھ نہ ہو تو آپ اُسے نہیں مانتے۔ تو پھر آپ کی بات کیسے مان لی جائے؟ وہ بھی بغیر دلیل کے؟

میری بات سُن کر وہ فورًا سنبھلے۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہ کوئی عام سامع نہیں، سوال کرنے والا جانتا ہے وہ کیا کہہ رہا ہے۔ انہوں نے فوراً بات بدلنے کی کوشش کی اور کہنے لگے:

دیکھیے! ہمارا طریقہ کسی موضوع پر یوں مجمع میں بحث کرنا نہیں ہے۔ آپ کے پاس میرا ایڈریس موجود ہے۔ آپ جو سوال پوچھنا چاہتے ہیں، وہ تحریری طور پر میرے سیکریٹری کے نام بھیج دیں۔ وہ سوال مجھے پیش کر دے گا، اگر مناسب سمجھا تو آپ کو تحریری جواب بھیج دیا جائے گا۔ اگر ملاقات ضروری ہوئی تو وقت طے کر کے آپ کو بلا لیا جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ دروازہ کھول کر تیزی سے اندر چلے گئے۔گویا دلیل کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رہی۔

بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top