اولیاء اللہ رحمتِ الہی کا ذریعہ ہیں، جن کے وسیلہ سے عذاب ٹال دیا جاتا ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
اہل اللہ دلوں کے سخی اور لوگوں کے خیر خواہ ہوتے ہیں: صدر منہاج القرآن
اولیاء اللہ وہ برگزیدہ بندے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ بن کر زمین پر اَمن، خیر اور برکت کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے اخلاص، تقویٰ اور دلوں کی پاکیزگی کے باعث اللہ تعالیٰ لوگوں سے عذاب ٹال دیتا ہے۔ اہلِ اللہ نہ صرف اللہ کے مقرب ہوتے ہیں بلکہ مخلوقِ خدا کے بھی خیر خواہ، ہمدرد اور دلوں کے سخی ہوتے ہیں۔ ان کی زندگیاں ایثار، محبت اور نیکی کا عملی نمونہ ہوتی ہیں، جو معاشرے میں روحانی اصلاح اور اخلاقی بہتری کا ذریعہ بنتی ہیں۔
امتِ محمدیہ کے چالیس ابدال: ہر وقت رحمتِ الٰہی کا ذریعہ:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے شانِ اولیاء کے متعلق خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لا يزال أربعون رجلا من أمتي قلوبهم على قلب إبراهيم، يدفع الله بهم عن أهل الأرض يقال لهم الأبدال۔’’میری امت میں چالیس آدمی ابدال ہمیشہ رہیں گے، جن کے دل قلبِ ابراہیمی کی مانند ہوں گے۔ اور جن کے صدقے اللہ تعالیٰ اہلِ زمین سے عذاب ٹالتا ہے، اُن کو ابدال کہا جاتا ہے۔‘‘
طبرانی، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص 181، رقم: 103090
پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: انہوں نے یہ رتبہ اور یہ مرتبہ کثرتِ صوم و صلاۃ سے حاصل نہیں کیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ، پھر یہ رتبے اُن کو کیسے حاصل ہوئے؟ تو آقا ﷺ نے فرمایا: انہوں نے یہ رتبے سخاوتِ قلبی اور عوام الناس کے لیے خیر خواہی کے ذریعے حاصل کیے ہیں۔
طبرانی، المعجم الکبیر، ج۱۰، ص 181، رقم: 103090
ہیثمی، مجمع الزوائد، ج۱۰، ص 63
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ: یہ اہل اللہ کی نشانی ہے جو دلوں کے سخی ہوتے ہیں اور لوگوں کے خیر خواہ ہوتے ہیں، یہ امت کے خیر خواہ ہوتےہیں، ان کا جینا مرنا امت کی خیر خواہی کے لیے ہوتا ہے۔ ان کی زندگی احوالِ امت کو سنوارنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہ وہ شخصیات ہیں جو مظلوموں کا سہارا بنتے ہیں اور ظالم کے ہاتھ کو روکنے کے لیے ہوتے ہیں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ ان کو عطا کرتا ہے یہ لوگوں کے اندر تقسیم کر دیتے ہیں۔ اگر ان کو نورِ الہی اللہ کی طرف سے دیا جاتا ہے تو یہ نورِ الہی بھی لوگوں میں بانٹتے ہیں، علمِ لدنی کی خیرات ہو تو وہ بھی لوگوں کے اندر تقسیم کرتے ہیں۔
حاصلِ کلام:
امتِ مسلمہ میں کچھ برگزیدہ ہستیاں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ’’ابدال‘‘ کہا جاتا ہے، جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی مانند نرم، مخلص اور اللہ کی طرف جھکے ہوتے ہیں۔ ان کے وجود کے باعث اللہ تعالیٰ زمین پر بسنے والوں سے عذاب کو دور فرما دیتا ہے۔ یہ مقام انہوں نے محض ظاہری عبادات کی کثرت سے نہیں پایا، بلکہ اپنے دل کی سخاوت، بےلوث خیر خواہی، اور مخلوقِ خدا کی بھلائی کے جذبے سے حاصل کیا۔ ایسے اولیاء اللہ نہ صرف اللہ کے قریب ہوتے ہیں بلکہ معاشرے کے لیے سراپا رحمت، مظلوموں کا سہارا اور ظالموں کے خلاف حق کی آواز ہوتے ہیں۔ جو نعمت بھی انہیں عطا ہوتی ہے، خواہ وہ نورِ الٰہی ہو یا علمِ لدنی، وہ اسے خود تک محدود نہیں رکھتے بلکہ دل کھول کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں، تاکہ امت کا حال سنورے اور بھلائی عام ہو۔
بلاگر: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر)
تبصرہ