شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی علمی خدمات
محمد حسین آزاد الازہری
اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض انفرادی اصلاح اور تعمیر شخصیت کے لئے نہیں بلکہ عالم دنیا پر دین اسلام کے غلبہ و استحکام کا عظیم مشن اورمقصد دیکر بھیجا تھا تاکہ ایک معتدل، متوازن اور عادلانہ و منصفانہ نظام قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے ساتھ ہی اس عظیم انقلاب کی بنیاد رکھ دی اور صرف ایک صدی کے اندر ہی یورپ، افریقہ اور ایشیا سمیت پوری دنیا میں ہمہ گیر اقتصادی، معاشی، سیاسی، معاشرتی، تہذیبی اور علمی و تعلیمی انقلاب برپا ہوگیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی محدود علاقے یا افراد کے لئے نجات دہندہ بن کرجلوہ افروز نہیں ہوئے تھے بلکہ پوری انسانیت کی رہبرو رہنمائی اور اصلاح آپ کا فریضہ منصبی تھا یہی وجہ ہے کہ آپ کو ’’رحمۃ للعلمین‘‘ کا ٹائیٹل دیا گیا اور اس عظیم عالمی انقلاب کے بعد بھی فلسفہ عروج و زوال کے مطابق دین اسلام کے دوبارہ احیاء کی بابت حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود ارشاد فرمایا تھا:
لَايقُوْمُ بِدِيْنِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ اَحَاطَه مِنْ جَمِيْعِ جَوَانِبِه.
(دلائل النبوة لابی نعيم)
’’دین کو وہی شخص زندہ کرسکے گا جو دین کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں داخل کرے گا‘‘۔
گویا موجودہ دورِ زوال کو پھر سے عروج آشنا کرنے کے لئے کسی ایسے مربی و رہنما اور عظیم قائد کی ضرورت تھی جس ہستی اور شخصیت کے اثرات دین اسلام کے صرف ایک دو پہلوؤں تک محدود نہ ہوں بلکہ بیک وقت وہ دین اسلام کے تمام پہلوؤں کو اپنی جدوجہد کے احاطے میں لیکر میدان عمل میں اترا ہو۔ اس حوالے سے اگر عالم اسلام کی موجودہ علمی وفکری، اعتقادی و نظریاتی اور سیاسی و انقلابی قیادتوں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس میں ہمیں دین کی دعوت کی وسعت، جامعیت اور ہمہ گیریت کے اعتبار سے ایک ایسی قیادت نظر آتی ہے جو مذکورہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مصداق ہے۔ ان کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو روز روشن کی طرح عیاں ہوتا ہے کہ ان کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور عزم مصمم کی خوبصورت کڑی ہے۔ انہوں نے متعدد قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں لیکچر دے کر عصر نو میں اسلام کے احیاء اور ترویج و اشاعت کے لئے ذہنی اور فکری طور پر اپنی تبلیغی کاوشوں سے فضا کو ہموار کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانہ آپ کی علمی قدرو منزلت کا معترف ہے اور اپنے پرائے سب اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ اگر ان کے اعزازات کا جائزہ لیا جائے تو ان کی فہرست بڑی طویل ہے۔ اختصار کے پیش نظر چند اہم اعزازات درج کئے جاتے ہیں۔
- 1971ء میں آل پاکستان مسلم ایجوکیشنل کانفرنس نے آپ کو قائداعظم گولڈ میڈل سے نوازا۔
- 1972ء میں پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈل حاصل کیا اسی سال آپ کو پاکستان کلچرل گولڈ میڈل بھی دیا گیا۔
- 1984ء میں ملی خدمات کے اعتراف میں کاروان شفقت پاکستان نے گولڈ میڈل کے ساتھ سند امتیاز بھی دی۔
- اسی سال نمایاں خدمات کے صلے میں قرشی گولڈ میڈل کے علاوہ سند امتیاز دی گئی۔
- انٹرنیشنل بائیو گرافیکل سنٹر (IBC ) آف کیمبرج انگلینڈ کی طرف سے تعلیم اور سماجی بہبود کیلئے دنیا بھر میں عظیم خدمات کے صلے میں پروفیسر صاحب کوThe International Man of the Year 1998-99 قرار دیا گیا ہے۔
- امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا کے سب سے بڑے غیر حکومتی تعلیمی منصوبہ چلانے، 250 کتب (جبکہ اب کتابوں میں اب اضافہ ہوچکا ہے) کے مصنف ہونے، 5000 سے زائد موضوعات پر دنیا کے مختلف خطوں اور اداروں میں لیکچر ز دینے، تحریک منہاج القرآن کے بانی اور منہاج انٹر نیشنل یونیورسٹی کے چانسلر ہونے کی خدمات کے صلے میں’’دی انٹر نیشنل کلچرل ڈپلومہ آف آنر‘‘ (The International Cultural Diploma of Honour) دیا گیا۔
- امریکن بائیو گرافیکل انسٹی ٹیوٹ (ABI) کی طرف سے دنیا بھر میں مختلف میدانوں میں معاشرے کیلئے غیر معمولی خدمات کے اعتراف پر (International Who's who of contemporary achievement) کے پانچویں ایڈیشن میں پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری پر ایک باب شامل اشاعت کیا گیا ہے۔
- بیسویں صدی کے International Who is Who کی طرف سے آپ کو Certificate of Recognition دیا گیا۔
- مختلف شعبہ ہائے زندگی میں موثر خدمات انجام دینے پر بیسویں صدی کا Achievement Award دیا گیا۔
- امریکن بائیو گر افیکل انسٹیٹیوٹ (ABI) کی طرف سے آپ کو بیسویں صدی کی غیر معمولی شخصیت
- (Outstanding Man of the 20th Century) کا خطاب دیا گیا۔
- بیسویں صدی میں غیر معمولی علمی خدمات پر Leading Intellectual of the World کا خطاب دیا گیا۔
- فروغ تعلیم کیلئے آپ کو بے مثال خدمات پر International Who is Who کی طرف سے Individual Achievement Award دیا گیا۔
- بے مثال تحقیقی خدمات پر آپ کو A.B.I کی طرف سے Key of Success کا اعزاز دیا گیا۔
علاوہ ازیں قومی اور بین الاقوامی جامعات میں آپ کی فکر و شخصیت اور خدمات پر تحقیقی کام بھی ہورہے ہیں۔
اس عظیم شخصیت نے اپنی دعوت کی بنیاد قرآن مجید کو بنایا اور اپنے مشن اور تحریک کا نام ہی ’’منہاج القرآن‘‘ رکھا۔ گویا انہوں نے امت مسلمہ کو دعوت دی کہ آؤ ہم اپنے عقائد، معاملات، عبادات اور مکمل نظام زندگی کو قرآن پر پرکھتے ہیں اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو استوار کرتے ہیں۔
اس عظیم قائد نے امت مسلمہ کے مرض کا ایسا علاج تجویز کیا کہ جس میں اختلاف یا انکار کی کوئی گنجائش موجود نہیں تھی۔ گویا انہوں نے پوری قوم کو دعوت عام دی کہ آؤ ہم مردہ اقدار حیات کو پھر سے زندگی بخشیں اور انتشار و افتراق اور تفرقہ پرستی کی دلدل سے نکل کر پھر سے اتحاد امت اور وحدت و یگانگت کا خواب شرمندہ تعبیر کریں۔ اس دعوت عمل سے بالخصوص نوجوان طبقہ کو امید کی کرن دکھائی دی اور جوق در جوق اس قافلہ عشق و مستی میں شامل ہوتے گئے۔ تحریک منہاج القرآن بپا کرنے کے عزم صمیم کے ساتھ ہی تحریک کے جو چھ بنیادی عناصر تشکیل دیئے گئے ان میں رجوع الی القرآن کو بنیادی حیثیت حاصل تھی جس کے لئے اس عظیم قائد نے ملک عزیز کے طول و عرض میں دروس قرآن کا جال پھیلادیا اور جب TV پر پاکستان میں ’’فہم القرآن‘‘ کا سلسلہ شروع ہوا اور 1992ء میں ابوظہبی اور متحدہ عرب امارات کے ٹیلیویژن پر انگریزی زبان میں Islam in focus اور Reflection of Quran کے موضوع پر خطابات نشر ہوئے تو اس کے اثرات عالمگیر سطح پر رونما ہوئے۔ اس طرح انہوں نے درج ذیل تین بنیادوں پر فروغ دعوت کا عمل کرکے فکری انقلاب کی بنیاد رکھ دی۔
- اسلام کی روحانی دعوت - Spiritual Presentation of Islam
- اسلام کی عملی دعوت - Practical Presentation of Islam
- اسلام کی سائنسی دعوت - Scientific Presentation of Islam
عالمگیر سطح پر اس دعوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ مغربی افکار و خیالات کا حامل آج کا نوجوان جو اپنے مسلمان ہونے پر نادم و شرمندہ تھا آج فخر کے ساتھ عقلی و نقلی بنیادوں پر اپنے اعتراضات کا تسلی بخش جواب پاکر دوبارہ سوئے منزل صراط مستقیم پر گامزن ہوا۔
اسی طرح جب اہانت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتنہ بپا ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبت و عشق، نسبت تعلق اور نسبت غلامی کو امتیازی حوالے سے باعث نزاع بنا دیا گیا اور دشمنان اسلام کی شعوری کوششوں کے نتیجے میں اکثر سادہ لوح مسلمان توحید کے زعم میں مبتلا ہوکر مرکز ایمان سے دور ہوگئے تو اس گمراہی میں پیش پیش نام نہاد علمائے دین شعوری یا غیر شعوری طور پر اس so called فتنے کا حصہ بن گئے۔ اس موقع پر اس عظیم قائد نے ایک بار پھر امت مسلمہ کے اس علاج کی تشخیص کرتے ہوئے اپنی دعوت کا عنوان ہی فروغ عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکھا اور قرآن و حدیث، اسوہ صحابہ رضی اللہ عنھم و اہل بیت رضی اللہ عنھم، تابعین، تبع تابعین، ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیھم اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیھم کی تعلیمات کی روشنی میں اس قدر جانبدار مؤقف پیش کیا کہ فرقہ پرست اور انتشار پسند علماء کو یہ موضوع ترک کرنا پڑا اور محبت و اطاعت اور عشق و اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناگزیریت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی۔ انہوں نے ثابت کردیا کہ
مغز قرآں، روح ایماں، جان دیں
ہست حب رحمۃ اللعلمین
یہی وجہ ہے کہ آپ کے وہ جلیل القدر اساتذہ جن کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ طے کیا اُن تمام عظیم المرتبت ہستیوں نے بلا استثنیٰ آپ کو زیور علم سے آراستہ کرنے کے لئے خصوصی توجہ اور تربیت سے نوازا جس کی وجہ سے آپ کم سنی میں ہی مرج البحرین یعنی جدید و قدیم علوم کے حامل اور جامع المعقول والمنقول بن کر ابھرے۔ عمر کے اس حصے میں آپ کی علمیت اور خطابت کا شہرہ چہار دانگ عالم میں پھیل گیا۔ ان کے درس نظامی، سکول، کالج اور یونیورسٹی کے سب اساتذہ کو معلوم تھا کہ یہ ذہین و فطین طالب علم ایک دن نام پیدا کرے گا کیونکہ اس میں عظیم شخصیت بننے کی غیر معمولی صلاحیتیں تھیں جنہوں نے دین متین کی خدمت اور اسے عروج آشنا کرنے کے کام آنا تھا۔
جن نامور شیوخ، جلیل القدر زعمائے ملت اور عظیم المرتبت اساتذہ کرام سے انہوں نے اکتساب علم اور اکتساب فیض کیا اور حکمت کے لولوئے آبدار سے اپنے دامن کو بھرا ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
- شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ (مرشد گرامی)
- فریدالملت حضرت علامہ ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمۃ اللہ علیہ (والد گرامی)
- شیخ العرب والعجم حضرت علامہ محمد ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہ
- استاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا عبدالرشید رضوی رحمۃ اللہ علیہ
- استاذ العلماء حضرت علامہ ابوالبرکات سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ
- غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ
- شارح بخاری حضرت علامہ مولانا غلام رسول رضوی
- مفکر اسلام حضرت ڈاکٹر برہان احمد فاروقی رحمۃ اللہ علیہ
- محقق عصر حضرت پروفیسر ڈاکٹر بشیر احمد صدیقی
- محدثِ حرم حضرت الشیخ السید محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ
ذیل میں ہم اس نابغۂ روزگار ہستی کی قومی اور بین الاقوامی تبلیغی خدمات کا مختصر جائزہ لیں گے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپریل 1978ء میں لاہور میں اپنے کیرئیر کا آغاز پنجاب یونیورسٹی کے لاء کالج میں بطور اسلامک لیکچرر کیا اس سے قبل گورنمنٹ کالج جھنگ اور پھر گورنمنٹ کالج عیسیٰ خیل میں اسلامک لیکچرر رہے۔ انہوں نے قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی میں بطور ایکسپرٹ بھی خدمات سرانجام دیں۔ انہوں نے وفاقی شرعی عدالت کے مشیر کے طور پر بھی بہت سے مقدمات میں عدالت کی علمی طور پر رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا۔ 1984ء میں وہ ایپلٹ شریعت بنچ سپریم کورٹ آف پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی مشیر فقہ مقرر ہوئے۔ اسی سال آپ نے مسلسل تین دن وفاقی شرعی عدالت میں رجم کے حد ہونے کی سزا کو ثابت کیا جس کے نتیجے میں مذکورہ عدالت نے رجم کے حد ہونے سے انکار پر مبنی فیصلے کو واپس لے لیا۔ اسی سال انہوں نے سلسلہ وار درس قرآن کا آغاز کیا۔ 1984ء ہی میں انہوں نے وفاقی شرعی عدالت میں پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت ثابت کرنے کے لئے دلائل دیئے۔ جس کی بناء پر عدالت نے قادیانیوں کی درخواست خارج کردی۔ 1984ء ہی میں آپ نے انتہائی ٹھوس اور مضبوط دلائل سے عورت کی پوری دیت کو ثابت کیا۔ اسی سال انہوں نے اوسلو (ناروے) کا پہلا تبلیغی دورہ کیا اور اوسلو میں بین الاقوامی اسلامک کانفرنس میں خطاب کیا۔ اس موقع پر کثیر تعداد میں عیسائی مسلمان ہوئے۔
دسمبر 1984ء میں انہوں نے متحدہ عرب امارات کا دعوتی و تبلیغی دورہ کیا اور اگلے سال مئی 1985ء میں وہ تبلیغی دورے پر ازبکستان تشریف لے گئے۔ 1986ء میں آپ امریکہ کے تبلیغی دورے پر تشریف لے گئے جس کے دوران انہوں نے نیویارک، واشنگٹن، لاس اینجلس، بالٹی مور اور لارل میں بھرپور خطابات کئے اور کئی غیر مسلموں کو حلقہ بگوش اسلام کیا اس کے علاوہ نوجوان نسل کو دین اسلام سے روشناس کرایا۔ اسی سال انہوں نے ڈنمارک کا تبلیغی دورہ بھی کیا جہاں آپ کی تبلیغی خدمات کے نتیجے میں ادارہ منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا۔ 1987ء میں پہلی عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منہاج القرآن پارک ماڈل ٹاؤن میں منعقد ہوئی جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی اور خصوصی خطاب شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا۔ اس دوران تین چار گھنٹے کی مسلسل بارش کے باوجود پنڈال کے سامعین جم کر کانفرنس کی کاروائی سنتے رہے۔ اس فقیدالمثال کانفرنس میں جن عظیم روحانی شخصیات نے شرکت فرمائی ان میں حضرت پیر صاحب آف گولڑہ شریف، ضیاء الامت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت پیر سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ (کرمانوالہ شریف)، حضرت پیر سید محمد باقر علی (کیلیانوالہ شریف)، مجاہد ملت حضرت مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت علامہ مولانا حامد سعید کاظمی، حضرت صاحبزادہ حاجی فضل کریم، حضرت علامہ شیخ گل (لنڈی کوتل) شامل ہیں۔
اپریل 1987ء میں آپ نے ڈنمارک کے تبلیغی دورے کے موقع پر عیسائی پادریوں سے مناظرہ کیا جس کا موضوع قرآن اور بائبل تھا آپ نے قرآن حکیم کی حقانیت کو ثابت کرتے ہوئے بائبل کے تضادات سے پردہ اٹھایا۔ اس مناظرے میں عیسائی پادریوں نے Show of hands کرکے اپنی شکست تسلیم کرلی جس کے نتیجے میں کئی عیسائی مسلمان ہوئے۔ اسی سال ستمبر میں آپ کے یورپ، امریکہ اور برطانیہ کے تبلیغی دورے کے دوران لارل، میری لینڈ (امریکہ) میں جامع مسجد منہاج القرآن کا قیام عمل میں آیا اور یونیورسٹی آف میری لینڈ میں آپ نے اسلام اور جدید سائنس کے موضوع پر تاریخی خطاب فرمایا اس موقع پر سلسلہ جراحی کے عظیم بزرگ حضرت خلیفہ نور صاحب بھی موجود تھے۔ اس تبلیغی دورے کے دوران آپ نے ٹورنٹو کی مشہور علمی شخصیت ڈاکٹر کیتھ مور سے بھی ملاقات کی جنہوں نے غیر مسلم ہونے کے باوجود تخلیق انسانی کے ارتقائی مراحل کو ذاتی تحقیقات کے نتیجے میں قرآن سے ثابت کرنے کا جرات مندانہ علمی کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
1988ء میں آپ نے جناح ہال لاہور میں انٹرنیشنل مسلم لائرز فورم کے زیراہتمام خطبات لاہور دیئے۔ یہ خطابات نہایت اہمیت کے حامل تھے۔ ان خطابات میں Well educated طبقہ نے بھرپور شرکت کی۔ ان خطبات کے موضوعات اسلام اورجدید سائنسی تحقیقات، اسلام اور جدید تصور قرآن، اسلام اور تصور معیشت وغیرہ تھے۔ جون 1988ء میں آپ نے عالمی سطح پر دعوت و تبلیغ کے کام کو نتیجہ خیز بنانے اور موثر طور پر بپا کرنے کے لئے لندن میں منہاج القرآن انٹرنیشنل کانفرنس منعقد کی جو انٹرنیشنل ویمبلے کانفرنس کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس انٹرنیشنل کانفرنس کی صدارت حضور قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری البغدادی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی جبکہ عالمی سطح کی اہم شخصیات کے علاوہ ملک پاکستان کے نامور علماء و مشائخ نے شرکت فرمائی۔ اسی کانفرنس میں الاتحاد العالمی الاسلامی کا قیام عمل میں آیا جس کے صدر کویت سے سلسلہ رفاعیہ کے الشیخ السید محمد یوسف ہاشم الرفاعی اور سیکرٹری جنرل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری منتخب ہوئے۔ اسی سال ستمبر میں جب مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے مسلمانوں کو مباہلہ کا چیلنج دیا گیا تو حضور شیخ الاسلام نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مباہلہ کے لئے اسے ایک کھلے خط کے ذریعے مینار پاکستان لاہور آنے کی دعوت دی۔ اس موقع پر آل پاکستان ختم نبوت کانفرنس منعقد ہوئی جس کی صدارت قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی۔ اس کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے شرکت فرمائی اور خصوصی خطاب حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے فرمایا۔ اتمام حجت کے لئے مرزا طاہر قادیانی کا صبح فجر تک انتظار کیا گیا مگر وہ بدبخت نہ آیا اور اسلام کی فتح ہوئی۔ اس موقع پر ضیاء الامت حضرت پیر کرم شاہ الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی زیرصدارت اتحاد امت کے لئے 12 نکاتی فارمولا منظور کیا گیا۔
حضور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر تبلیغی خدمات کے نتیجے میں اسی سال دسمبر 1988ء میں امریکہ کے معروف عیسائی مبلغ ڈاکٹر مارٹن ڈینیل نے طویل بحث و مباحثہ کے بعد لاہور میں حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر قبول اسلام کیا۔ جنوری 1989ء میں حضور شیخ الاسلام کی عالمی سطح پر انہی تبلیغی مساعی کے نتیجے میں پیراکی کے معروف اولمپک کوچ بارتواندرادے (سکاٹ لینڈ) مرکزی سیکرٹریٹ تحریک منہاج القرآن میں حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر دولت اسلام سے بہرہ یاب ہوئے۔ ماہ ستمبر 1989ء میں حضور شیخ الاسلام نے عصر حاضر کے عظیم صوفی بزرگ ابوانیس حضرت برکت علی لدھیانوی کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے ملاقات کی۔ بابا جی نے آپ کاپرتپاک خیر مقدم کیا اور آپ کی پیشانی کو چومتے ہوئے آپ کو امام وقت قرار دیا۔ نیز تحریک منہاج القرآن کی سرپرستی کا بھی اعلان فرمایا۔ ستمبر میں تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں عظیم الشان علماء کنونشن منعقد ہوا جس میں پنجاب بھر سے دو ہزار علماء نے باقاعدہ شرکت کرکے کامیاب بنایا۔ انہوں نے اس موقع پر علماء کونسل کی ممبرشپ حاصل کی۔ اگلے ماہ اکتوبر میں حضور شیخ الاسلام نے سرگودھا میں مصطفوی انقلاب کانفرنس سے خطاب کیا جس میں فرمایا کہ وہ اب تک تبلیغ دین کے لئے 50 لاکھ میل کا سفر طے کرچکے ہیں۔ آپ کی انہی تبلیغی خدمات کا نتیجہ تھا کہ اگست 1990ء میں ایک انگریز محقق کرسٹوفر نے حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر قبول اسلام کی سعادت حاصل کی۔ اگلے سال 1991ء میں ترکی میں سلسلہ نقشبندیہ کے معروف روحانی بزرگ السید الشیخ محمد ناظم عادل الحقانی، تحریک کے مرکزی سیکرٹریٹ میں تشریف لائے اور حضور شیخ الاسلام سے خصوصی ملاقات کی۔ مارچ 1991ء میں حضور شیخ الاسلام نے مشن سے وابستہ علماء کرام اور دینی سکالرز کے لئے دس روزہ دراسات قرآن کا اہتمام فرمایا اور تحریک کے اپنے مبلغین تیار کئے۔ اسی سال جولائی اور اگست میں حضور شیخ الاسلام کا ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، بیلجیئم، جرمنی اور برطانیہ کا کامیاب ترین تبلیغی، دعوتی اور تنظیمی دورہ ہوا اور فرینکفرٹ (جرمنی) میں عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منعقد ہوئی اس دورہ کے دوران برطانیہ کے گیارہ شہروں میں تنظیمات قائم ہوئیں۔ اس کے بعد سکنڈے نیویا میں عظیم الشان منہاج القرآن کانفرنس منعقد ہوئی جس میں آپ نے اسلام اور سائنس کے نہایت اہم موضوع پر خطاب فرمایا۔ اس دورے میں کشتی میں ایک سفر کے دوران سویڈن کے چند نوجوانوں نے حضور شیخ الاسلام کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ماہ نومبر میں آپ خلیجی ریاستوں کے تبلیغی دورے پر بھی تشریف لے گئے اور اپنے تفصیلی دورے کے دوران بھرپور انداز میں دین اسلام کی وکالت کی۔
جنوری 1997ء میں آپ نے 30 دینی پروگرام ابوظہبی TV کے لئے ریکارڈ کروائے جو رمضان المبارک میں روزانہ نشر ہوتے رہے۔ جس کے بعد آپ حرمین شریفین کی زیارت کے لئے گئے تو آپ کی علمی، فکری، دعوتی اور تبلیغی خدمات کی بناء پر محدث حرم الشیخ محمد بن علوی المالکی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو خصوصی سند اور سلسلہ محدثین کی طرز پر روایتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی جو بلاشبہ بہت بڑا اعزاز تھا۔ ماہ فروری میں نواز حکومت کے ایک وزیر کے بیان کہ ’’اسلام میں سود کا متبادل نظام موجود نہیں‘‘ آپ نے چیلنج کیا کہ میرے پاس سود کا متبادل نظام موجود ہے جو میں پوری قوم کے سامنے TV پر پیش کرنے کے لئے تیار ہوں اگر حکومت مخلص ہے تو اسے نافذ کرے مگر اس چیلنج کا آج تک جواب نہیں دیا گیا۔ اسی سال ماہ مئی میں حضور شیخ الاسلام کی قیادت میں علماء کرام کا 22 رکنی وفد تبلیغ دین اور اظہار یکجہتی کے لئے افغانستان کے دورے پر روانہ ہوا اور افغانستان کے صدر پروفیسر برہان الدین فاروقی سے ملاقات کی۔ اس موقع پر آپ نے افغان بھائیوں کی امداد کے لئے 70 لاکھ افغانی روپے کا امدادی چیک بھی پیش کیا۔ ماہ اگست میں آزاد کشمیر کے تبلیغی دورہ کے دوران آپ نے وزیراعظم سیکرٹریٹ مظفرآباد میں ’’اسلامی ریاست کے عمال حکومت کی ذمہ داریاں‘‘ کے عنوان پر تاریخی اور یادگار خطاب فرمایا۔ اسی سال ماہ اکتوبر میں انہوں نے موچی دروازہ لاہور میں لاکھوں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاسود بنکاری نظام اور سود کا متبادل اسلامی نظام معیشت کا خاکہ پیش کیا اور تقریباً سو ایسے مالیاتی اداروں اور بنکوں کا حوالہ دیا جو غیر سودی بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ اگلے سال فروری 1993ء میں عظیم مبلغ اسلام اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک عظیم اجتماع میں تمام مکاتب فکر کے علماء کی موجودگی میں شاتم رسول اور گستاخ رسول سلمان رشدی کے قتل کا مشترکہ فتویٰ جاری کیا۔ انہوں نے اس کانفرنس میں حکومت ایران سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کی گستاخی کو حرام قرار دے۔ بین الاقوامی سطح پر آپ تبلیغ اسلام کا حق ادا کررہے تھے مگر دشمنوں کو کب گوارا تھا۔ اسی سال اپریل میں جنوبی افریقہ کے دورہ کے دوران ڈربن یورنیورسٹی میں لیکچر کے دوران سازشی عناصر نے قاتلانہ حملہ کیا مگر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ فائرنگ کے وقت بعض لوگوں کو ہدایت الہٰی نصیب ہوئی اور خون کے پیاسے محافظ بن گئے اور انہوں نے فسادیوں کا مقابلہ کرکے آپ کو محفوظ مقام پر پہنچا دیا۔ بعدازاں حملہ کرنے والوں کو حضور شیخ الاسلام نے معاف کردیا اور وہ دائمی طور پر تحریک میں شامل ہوگئے۔ مذکورہ پروگرام اور خطاب کے سامعین میں بین الاقوامی شہرت یافتہ مبلغ اسلام جناب احمد دیدات صاحب بھی شامل تھے۔
آپ کے تبلیغی دورے عروج پر تھے اس دوران ماہ جولائی میں ادارہ منہاج القرآن ڈنمارک کے زیراہتمام مسلمان سفراء کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سابق صدر افغانستان جناب صبغت اللہ مجددی نے بھی خصوصی شرکت فرمائی۔ تبلیغ دین کے اگلے مرحلے میں آپ ستمبر 1993ء میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور سنگا پور پہنچے تو آپ کا والہانہ استقبال کیا گیا اور جوق در جوق لوگ مصطفوی انقلاب کے عظیم مشن میں شامل ہوئے۔ اکتوبر 1993ء میں آپ نے سڈنی کے کنگ فہد ہال میں تقابل ادیان کے حوالے سے Islam and Christianity کے موضوع پر انگریزی زبان میں یونیورسٹی آف ولنگانگ میں خطاب کیا اور دین اسلام کی حقانیت کا پرچم لہرادیا۔ وہاں سے آپ ملبورن روانہ ہوئے اور دورہ فجی کے دوران آپ کی تبلیغی کاوشوں کا ثمر یوں ملا کہ وہاں کی معروف مونۃ الاسلام ایسوسی ایشن نے پورے ملک میں قائم اپنی تنظیمات کو منہاج القرآن میں ضم کردیا۔
اگلے سال 1994ء میں آپ جنوبی افریقہ کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوئے اور تحریک منہاج القرآن اور اہل سنت و جماعت جنوبی افریقہ کے زیراہتمام حضور شیخ الاسلام کی تبلیغی کاوشوں کے اعتراف میں ایک Grand Party کا انعقاد کیا گیا جس میں وزیراعظم ساؤتھ افریقہ مہمان خصوصی تھے۔ حضور شیخ الاسلام اور وزیراعظم کے مابین افریقی اور پاکستان عوامی تحریک کے پرچم کا تبادلہ کیا گیا۔ افریقی میڈیا نے آپ کے دورے کو بھرپور کوریج دی۔ اخبارات نے استقبالیہ کی شہ سرخیوں لگائیں۔ تبلیغ کا یہ پیغمبرانہ مشن جاری رکھتے ہوئے اسی سال ستمبر میں آپ دورہ فرانس کے لئے تشریف لے گئے اور خواتین کی کانفرنس میں پیغمبرانہ مشن میں خواتین کی اہمیت و کردار کے موضوع پر خصوصی خطاب فرمایا۔ اس سے قبل پیرس میں تحریک کا دفتر خریدا گیا تھا اور آپ کی تین کتب کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ ہوچکا تھا۔ جن کی تقریب رونمائی میں آپ نے شرکت فرمائی۔ اس تبلیغی جدوجہد کی خاص بات یہ ہوئی کہ دنیائے اسلام کے نامور سکالر جناب ڈاکٹر حمیداللہ ادارہ منہاج القرآن فرانس کے دفتر میں قائد تحریک سے ملاقات کے لئے تشریف لائے اور حضور شیخ الاسلام کی خدمات کو سراہا۔ تبلیغ کے اگلے مرحلے میں اکتوبر 94ء میں آپ نے جاپان کے شہر گنی کن کے مشہور شیگرا ہال میں خطاب کیا اس دوران سٹی اسپکائی میں تحریکی احباب کے مالی تعاون سے 82 ملین ین (جو 3 کروڑ پاکستانی روپے بنتے ہیں) کی کثیر رقم سے منہاج القرآن کی مسجد کے لئے زمین خریدی۔ اسی دوران شپ کن سٹی میں بھی آپ نے CHUO یونیورسٹی کے ارباب علم و دانش سے ’’مغرب کے غیر فطری تصور اور اسلامی تصور قرآن کا تقابلی جائزہ‘‘ کے موضوع پر خطاب فرمایا اور یونیورسٹی کو اپنی کتب کا مکمل سیٹ تحفہ میں دیا۔ اسی سال اکتوبر میں آپ چین کے تبلیغی دورہ پر تشریف لے گئے اور بیجنگ کی سب سے بڑی مسجد میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کی امامت فرمائی۔ اسی سال اکتوبر میں نقیب الاشراف سیدنا ابراہیم سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ خاص حضرت پیر سید رسول شاہ خاکی رحمۃ اللہ علیہ جو قائد تحریک کو ’’شیخ الاسلام‘‘ کہہ کر پکارتے تھے اور قائد تحریک سے انتہائی محبت فرماتے تھے وہ 130 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کرگئے تو ان کی نماز جنازہ ان کی وصیت کے مطابق حضور شیخ الاسلام نے پڑھائی۔ اسی سال دسمبر میں ملائیشیا، ہانگ کانگ اور سنگا پور کا تبلیغی دورہ کیا اور مرکزی جامع مسجد الفلاح میں سیرت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہمہ گیریت و اہمیت پر خصوصی خطاب فرمایا۔
اگلے سال جنوری 1995ء میں امیر تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد کی دعوت پر قرآن اکیڈمی لاہور میں آپ نے اسلامی انقلاب کے طریق کار پر خطاب فرمایا۔ فروری 95ء میں پیر طریقت حضرت خواجہ صوفی نقیب اللہ شاہ صاحب وفات پاگئے جو تحریک منہاج القرآن کے نہ صرف باقاعدہ رفیق تھے بلکہ تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک کے لئے فرماتے تھے کہ ’’منہاج القرآن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہمان خانہ ہے۔ لہذا تم اس مہمان خانہ کے خادم جناب طاہرالقادری صاحب کے دست و بازو بن کر احیاء اسلام میں اس کے معاون و مددگار بنو‘‘۔ نیز انہوں نے اعلان کررکھا تھا کہ جو تحریک کا رفیق نہیں وہ ہمارا مرید نہیں۔ ماہ مارچ میں ایک عالمی شہرت یافتہ عیسائی مبلغ جان ایموئیل (بشپ لاہور) نے آپ کے دست اقدس پر اسلام قبول کیا اور آپ نے اس کا اسلامی نام محمد عبداللہ قادری رکھا۔ اسی سال ماہ مارچ میں قائد تحرک نے اپنے سکاٹ لینڈ قیام کے دوران جدید ترین تحقیق پر مبنی تخلیقی کارنامہ Quran on creation and evaluation of universe سرانجام دیا جس پر عالمی شہرت یافتہ سائنسدان ڈاکٹر کیتھ ایل مور (ٹورنٹو یونیورسٹی) نے آپ کی کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’جو کام میں برسوں کی تحقیق کے بعد نہ کرسکا وہ آپ نے صرف 12 دن میں پایہ تکمیل تک پہنچا کر واقعی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے‘‘۔ اسی سال ماہ مئی میں آپ 10 روزہ تبلیغی و تنظیمی دورے پر کینیڈا تشریف لے گئے اور فائریال، ٹورنٹو اور ونڈسر میں دعوتی خطابات کئے۔ اسی سال ماہ اپریل میں آپ نے امریکہ کے تبلیغی دورے کے دوران مانچسٹر، آمنشن ٹاؤن، برمنگھم اور رمفورڈ جیسے برطانوی شہروں میں خطابات کئے۔ اسی سال ماہ اگست میں آپ 15 روزہ تبلیغی دورے پر اردن اور عراق تشریف لے گئے۔ اسی سال ماہ نومبر میں آپ تین رکنی وفد کی قیادت کرتے ہوئے ازبکستان کے تبلیغی دورے پر روانہ ہوئے اور دورہ تاشقند کے علاوہ امام بخاری انسٹیٹیوٹ کا بھی دورہ کیا۔ اسی سال ستمبر میں آپ نے چار رکنی وفد کے ہمراہ عراق اور ایران کا تبلیغی دورہ کیا۔
اگلے سال فروری 97ء میں انہوں نے ترکی کا تبلیغی دورہ کیا اور استبنول میں بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا۔ اسی سال مئی میں آپ پہلی بار ہندوستان کے تبلیغی، دعوتی و تنظیمی دورے پر روانہ ہوئے اور اجمیر شریف سمیت دہلی میں دیگر زیارات مقدسہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ آپ کا حیدر آباد دکن میں تاریخی استقبال ہوا اور حیدر آباد دکن کی مشہور جلسہ گاہ خلوت میدان میں آپ نے لاکھوں کے اجتماع سے خطاب کیا۔ آپ کے اس دورہ کے میزبان معروف مسلمان قائد اور ممبر پارلیمنٹ صلاح الدین ایوبی تھے۔ جون میں آپ نے اپنے تبلیغی دورے میں کینیڈا میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ Inter faith Dialogue میں انسانی حقوق کے حوالے سے سب سے بڑے اجتماع سے خطاب کیا۔ اس سے پہلے آپ نے ٹورنٹو کے چرچ تھارن کلب میں اسلام کی حقانیت کے بارے تاریخی خطاب کیا۔ دورہ کینیڈا کے دوران آپ نے ٹورنٹو میں مقیم مسلمانوں کے لئے منہاج القرآن یونیورسٹی ٹورنٹو، جامع مسجد، کمیونٹی سنٹر، چائلڈ کیئر سنٹر، یوتھ کلب اور شادی ہال جیسے عظیم تبلیغی و فلاحی منصوبے کا اعلان کیا جس کے لئے تحریکی احباب نے چھ لاکھ ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کی۔
اسی ماہ فروری میں آپ نے وفد کے ہمراہ شام کا تبلیغی دورہ کیا اور دمشق کے اسلامی مرکز جامع اموی کا Visit کیا یہ وہ مسجد ہے جہاں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ وہاں سے آپ دعوتی و تبلیغی دورے پر مصر روانہ ہوئے جہاں قاہرہ میں شیخ الازہر الشیخ سید محمد طنطاوی کے مہمان خصوصی رہے اور دیگر شہروں میں خطابات کے علاوہ جبل طور پر بھی حاضری دی۔
فروری 1999ء کو انہوں نے امریکہ کے شہر نیویارک، برومکین اور نیوجرسی میں تبلیغی دورے کئے اور نیو جرسی میں منہاج القرآن اسلامک سنٹر کا افتتاح فرمایا جس کی تعمیر وابستگان تحریک کے دیئے گئے عطیے کی خطیر رقم 71 لاکھ ڈالر سے عمل میں آئی۔
فروری 2000ء میں تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام عظیم الشان آل پاکستان علماء و مشائخ کانفرنس منہاج القرآن پارک لاہور میں منعقد ہوئی۔ پاکستان بھر سے سینکڑوں علماء و مشائخ نے کانفرنس کو رونق بخشی اور تقریباً 20 جید علماء ومشائخ نے نمائندگی کرتے ہوئے خطابات کئے۔ حضور شیخ الاسلام نے خصوصی خطاب کرتے ہوئے علماء و مشائخ کو مساجد اور خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کرنے کی ضرورت کا احساس دلایا اور تہجد، جہاد اور اجتہاد کا راستہ اختیار کرنے کی ترغیب دی۔ دسمبر 2003ء میں آپ نے مڈل ایسٹ کا بھرپور تبلیغی دورہ کیا۔ اسی طرح 2004ء میں آپ نے بالترتیب مسقط، کویت، بنگلہ دیش، لندن، سکاٹ لینڈ، فرانس اور UK کا تبلیغی دورہ کیا اور ان میں منعقدہ علمی کیمپ میں خطابات فرمائے۔ علاوہ ازیں اسی سال ستمبر میں حیدرآباد، دکن، اجمیر شریف اور دہلی کا 13 روزہ تبلیغی دورہ فرمایا۔ نومبر میں لندن کا تبلیغی دورہ کرکے دسمبر میں حرمین شریفین حاضر ہوکر حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔
مارچ 2005ء میں پاکستان کے دل لاہور کی سرزمین پر عظیم عالمی تحریک، تحریک منہاج القرآن کے مرکز پر ایک عظیم اجتماع میں سینکڑوں علماء و مشائخ، دینی سکالرز اور ہزارہا خواتین و حضرات سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’امام ابوحنیفہ، امام الائمہ فی الحدیث‘‘ کے موضوع پر تاریخی اور یادگار علمی و تحقیقی خطاب فرمایا جس کی پہلی جلد نو سو (900) صفحات پر مشتمل اب کتابی صورت میں بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ اس عظیم علمی اجتماع کی نقابت مایہ ناز خطیب، ادیب اور محقق حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر عبدالرحمن بخاری نے فرمائی۔ اس موقع پر نامور علماء و مشائخ اور صاحبان علم و دانش موجود تھے جن میں سے چند نام درج ذیل ہیں۔ جانشین فقیہ اعظم حضرت علامہ محمد محب اللہ نوری صاحب، سجادہ نشین آستانہ عالیہ چشتیہ آباد شریف (کامونکی) حضرت پیر پروفیسر ڈاکٹر جمیل الرحمن چشتی صاحب، کراچی کے نامور علماء میں سے حضرت علامہ مفتی محمد رفیق الحسنی صاحب، حضرت علامہ غلام دستگیر افغانی صاحب، حضرت علامہ غلام محمد سیالوی صاحب، حضرت علامہ سید عظمت علی ہمدانی صاحب، اہل تشیع کے نامور سکالرز محترم جناب آغا مرتضیٰ پویا صاحب، محترم علامہ سید علی غضنفر کراروی صاحب کے علاوہ پرنسپل جامعہ منہاج الحسین محترم علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر صاحب اور پرنسپل جامعۃ المنتظر محترم علامہ مولانا محمد موسیٰ بیگ صاحب، سابق جسٹس قم محترم علامہ سید نیاز حسین قمی صاحب، ایرانی نائب قونصلیٹ جنرل آقائے میر علی صاحب، خانہ فرہنگ ایران کے ڈائریکٹر جنرل آقائے رضا امینی صاحب، جید مشائخ عظام میں سے سجادہ نشین دربار عالیہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ (پاکپتن شریف) پیر طریقت حضرت دیوان حاجی بختیار سید محمد چشتی صاحب، جگر گوشہ ضیاء الامت حضرت صاحبزادہ پیر امین الحسنات صاحب، سجادہ نشین دربار حضرت خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ (کوٹ مٹھن شریف) پیر طریقت حضرت خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ صاحب، شام سے فضیلۃ الشیخ احمد الزبیدی الشامی صاحب، اجمیر شریف انڈیا سے حضرت پیر خواجہ محمد بلال چشتی صاحب، سلسلہ عالیہ سیفیہ نقشبندیہ کے پیر طریقت شیخ الحدیث حضرت صاحبزادہ مولانا حمیداللہ جان صاحب کے علاوہ مدارس دینیہ کے اساتذہ کرام، منتہی طلباء اور دیگر اہل علم حضرات کا جم غفیر موجود تھا جو سب امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی محبت سے سرشار ہوکر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا خطاب سماعت فرمارہے تھے اور امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علم حدیث میں خدمات کے حوالے سے تین گھنٹے پر مشتمل اس تحقیقی خطاب کے بعد اپنے حنفی ہونے پر فخر کررہے تھے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کو فقہ میں تو امام اعظم تسلیم کیا جاتا ہے مگر آج شرکاء میں سے ہر فرد نے علم حدیث میں بھی امام اعظم ابوحنیفہ کی امامت کا لوہا مان لیا۔ اس علمی و تحقیقی خطاب میں حضور شیخ الاسلام نے جن اہم موضوعات پر سیر حاصل بحث کی وہ یہ ہیں۔ فہم قرآن و حدیث کے لئے فقہ کی ناگزیریت، علم الحدیث اور فقہ الحدیث میں فرق، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت، نسب اور بلند پایہ فقاہت، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں بشارت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ائمہ فقہ و حدیث میں صرف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا تابعی ہونا، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے اخذ علم الحدیث کے مراکز، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اکابر صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہ کے علم الحدیث کے وارث، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ 9 ائمہ اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم الحدیث کے وارث، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اکابر تابعین کے علم الحدیث کے وارث، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ حدیث اور ان کی ثقاہت، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ الشیوخ ہونا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ثلاثیات کے راوی امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تلامذہ، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ائمہ صحاح ستہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہونا، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عدم روایت کی وجوہات، امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے مروی احادیث۔
دسمبر 2005ء میں جمعۃ المبارک کے عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ظہور امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے اشکالات کا علمی محاکمہ کیا اور اصل حقائق کا ایمان افروز بیان فرمایا۔ شروع میں خطاب کی اہمیت اور موضوع کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا:
i۔ سیدنا امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے مختلف قسم کے اعتقادی فتنے پیدا ہورہے ہیں۔ ان میں سے پہلا فتنہ یہ ہے کہ بعض اہل علم کے نزدیک امام محمد مہدی علیہ السلام نام کی کوئی شخصیت نہیں ہے اور کسی معین شخص کو اس نام سے نہیں آنا بلکہ ہر دور میں ایک مہدی ہوتا ہے۔ اس خیال کے پیش نظر بہت سے لوگوں نے اپنے آپ کو مہدی خیال کیا اور گمراہ ہوگئے۔ یہ فتنہ بعض اہل علم کے علمی اور فکری مغالطے کی وجہ سے پیدا ہوا۔ اس تصور کو فتنہ اس لئے قرار دے رہا ہوں کیونکہ امام مہدی ایک معین شخص اور ایک معین امام ہیں جن کی آمد کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صراحۃً فرمایا لہذا ان کی آمد کا انکار دراصل گمراہی اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغاوت ہے۔
ii۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ آج یہ فتنہ پیدا ہوچکا ہے کہ کچھ لوگ خود امام مہدی ہونے کا اعلان کررہے ہیں۔ انہی میں ہندوستان سے غلام احمد قادیانی بھی ایک تھا جس نے ابتداء مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور نبوت کے جھوٹے دعوے سے پہلے مہدیت کی سیڑھی پر قدم رکھا پھر اس کو خبر ہوئی کہ امام مہدی کے زمانے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی ہوگا تو اس نے خود حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہونے کا دعویٰ بھی کردیا حالانکہ حقیقت میں وہ نہ مہدی تھا اور نہ عیسیٰ بلکہ وہ دجال تھا۔
iii۔ اس موضوع کو اختیار کرنے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ آج جس سے خود مہدی ہونے کا اعلان نہ ہوسکا وہ یہ دعویٰ کر بیٹھتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں اور اس خیال و تصور کو بعض علماء، خطباء، نام نہاد مفکر اخبارات اور کتب و رسائل میں بھی لکھ رہے ہیں اور TV پر بھی بیان کررہے ہیں۔ یہ فتنہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں ہی نہیں بلکہ عالم عرب بھی اس فتنہ کی لپیٹ میں ہے کہ امام مہدی پیدا ہوچکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ وہ 1960ء کے پیدا ہوچکے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ میں ان سے ملا بھی ہوں حتی کہ مجھ سے خود کئی لوگوں نے کہا ہے کہ ہم امام مہدی سے مل چکے ہیں۔ کوئی انہیں یمن میں ٹھہرائے ہوئے ہے، کوئی پاکستان میں اور کوئی سوڈان، ملائیشیا اور ایران میں امام مہدی کے پیدا ہوچکنے کی اطلاع دے رہا ہے۔
iv۔ چوتھا سبب یہ ہے کہ بعض لوگ امام مہدی علیہ السلام کے حوالے سے شکوک و شبہات میں بھی گھرے ہوئے ہیں اور آپ کی آمد کو توہمات اور خصوصاً شیعہ حضرات کے گھڑی ہوئی باتیں تصور کرتے ہیں۔ یہ خیال سراسر باطل ہے اس لئے کہ امام مہدی علیہ السلام کے حوالے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کثرت سے کتب حدیث میں منقول ہیں۔ لہذا امام مہدی کی آمد کا انکار کرنا حقیقت میں فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انکار کے مترادف ہوگا۔
ان اسباب کے بیان سے موضوع کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے اور اس نہایت علمی، فکری اور تحقیقی خطاب سے مذکورہ فتنوں کا نہ صرف قلع قمع ہوگیا بلکہ امام مہدی علیہ السلام کے متعلق عقیدہ روز روشن کی طرح عیاں ہوگیا۔ اس نہایت اہمیت کی حامل تبلیغی و علمی خدمت اور فتنہ کی سرکوبی کا سہرا بھی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے سر پر سجا ہے۔
تبصرہ