قدوۃ الاولیاء پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری (رح) اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
حافظ عابد بشیر قادری
روحانیت کا کبھی نہ ختم ہونے والا نظا م جو حضور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شروع ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین و تبع تابعین سے لے کر عصر حاضر تک زمانہ بہ زمانہ چلتا آرہا ہے۔ ان میں سے ایک نامور روحانی شخصیت حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی ہے جن کے کارناموں کے اثرات آج جریدہ عالم پر مرتسم ہیں اور گزشتہ ایک ہزار سالہ تاریخ اس پر شاہد عادل ہے۔ مجدد اعظم غوثیت مآب حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بغداد شریف میں روحانیت و طریقت کے جو لازوال چراغ روشن کئے اس سے پوری کائنات کی فضائیں آج بھی مستنیر ہیں اور اس کی تابِ ضَو اطراف و اکناف عالم میں ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔
یوں تو حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں فیوض و برکات کالامتناہی سلسلہ برصغیر پاک و ہند میں فیض رساں ہوچکا تھا اور روایات کے مطابق سر زمین ہندوستان میں قدم رنجہ فرمانے والے پہلے بزرگ تھے۔ آپ کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت شیخ سیدنا عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ جو کچھ عرصہ قیام کے بعد واپس بغداد تشریف لے گئے لیکن حصول فیض کے لئے کثیر تعداد میں اولیاء، صلحاء، امراء، مشائخ، سلاطین اور عامۃ الناس حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد کو بلاد ہند میں آنے کی دعوت دیتے رہے۔ وقائع نویسوں کے تذکرے اس پر گواہ ہیں کہ خاندان گیلانیہ کے اکابر مشائخ وقتاً فوقتاً برصغیر پاک و ہند میں تشریف لاتے رہے مگر مستقل سکونت اور فیوض و برکات کے اجراء کے لئے شہزادہ غوث الوریٰ قطب الاقطاب سیدالسادات قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی پاکستان تشریف آوری حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے متعین ہوچکی تھی۔
سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ 18 ربیع الاول 1352ھ کو عراق کے دارالحکومت اور فیوضات و تجلیات غوث صمدانی کے مرکز بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت جس گھر میں ہوئی وہ ’’حرم دیوان خانہ قادریہ‘‘ سے موسوم ہے۔
آپ نے ابتدائی دینی تعلیم مسجد سلطان میں اور مدرسہ دربار غوثیہ میں تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم کے علاوہ دیگر علوم و فنون میں کمال درجہ کی مہارت حاصل کی۔ روحانی تربیت و فیض کے باب میں سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا پورا خاندان اور اس کے نامور مشائخ و نقباء شہرہ آفاق حیثیت کے حامل تھے اس لئے کہ فیضان کا اصل مرکز اور سرچشمہ ان کے جد امجد حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی تھا لیکن آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سب سے پہلے کسب فیض اپنے والد ماجد حضرت سیدنا شیخ محمود حسام الدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا۔ وہ نقیب الاشراف اور خاندان گیلانیہ کی سب سے عظیم اور ممتاز شخصیت تھے۔ حضور قدوۃ الاولیاء مسلمانان پاک و ہند بالخصوص اور مسلمانان عالم کی روحانی تربیت اور سلسلہ قادریہ کی ترویج و اشاعت کے لئے سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایما پر پاکستان تشریف لائے اور غوث صمدانی نے کشور ولایت سپرد کرتے ہوئے آپ کو حضور داتا گنج بخش علی الہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لاہور بھیجا اور آپ مزار کے اس مقام پر چند دنوں کے لئے چلہ کش ہوئے جہاں حضرت خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ ولایت ہند سوپنے جانے سے قبل چلہ کش ہوئے تھے۔ احاطہ مزار میں چند دن فروکش ہونے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تقرری کا حکم نامہ جاری ہوا اور آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کوئٹہ (بلوچستان) کو اپنا روحانی مستقر بنانے کا اشارہ ملا اور یہیں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے مستقل سکونت اختیار فرمائی۔
حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نہایت پاک سیرت، اتباع شریعت، طریقت و معرفت اور حسن خلق میں اپنی نظیر آپ رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک نگاہ فیض اثر نے لاکھوں کی تقدیریں بدل کے رکھ دیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے فیوض و برکات نے جہان معنی کو زندہ کردیا اور آپ ہی کے فیوض و برکات و اثرات کی سب سے بڑی اور درخشندہ مثال تحریک منہاج القرآن اور بانی تحریک منہاج القرآن حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے ایک چیز روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آج تک اسلام کی تاریخ میں جتنی بھی تحریکوں نے کام کیا وہ روحانی اقدار کے احیاء کے لئے ہوں یا غلبہ دین حق کی بحالی کے لئے یا خانقاہی نظام کے احیاء کے لئے ہوں مختصر یہ ہے کہ کسی بھی نیک اور عظیم کام کے لئے جو بھی جدوجہد ہو اس کے پیچھے ضرور کسی مرد قلندر کا ہاتھ ہوتا ہے جس کی نگاہ بصیرت اور فیض خاص سے وہ جدوجہد کامیاب ہوتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچا جاتا ہے۔
مکین گنبد خضرٰی کے نعلین پاک کے تصدق، فیضان غوثیت مآب رحمۃ اللہ علیہ اور حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی ولایت کی تابدار کرنوں کے فیض سے بحالی غلبہ اسلام اور تجدید و احیائے دین کی اس عظیم تحریک کا آغاز ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے صدیوں کا سفر لمحوں میں طے کرتے ہوئے اس مشن کو وہ تحرک ملا کہ آنے والا ہر لمحہ اس تحریک کی عظمت و مقبولیت اور اشاعت و وسعت کا پیام بن گیا اور ڈاکٹر صاحب جیسی عبقری، یگانہ روزگار اور نابغہ عصر شخصیت کی تمام تر علمی، عملی، فکری، نظریاتی، روحانی، سیاسی، تحریکی، فقہی، محدثانہ، مفسرانہ، انقلابی سوچ اور جدوجہد درحقیقت اس روحانی بیعت کا نتیجہ ہے جو انہوں نے حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پرست پر کی تھی اور دوسری بیعت وہ جس کو حضور شیخ الاسلام ’’بیعت انقلاب‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
حضور شیخ الاسلام نے حضور قدوۃ الاولیاء کے دست اقدس میں ہاتھ دیکر اللہ تعالیٰ سے عظیم عہد کیا کہ وہ اپنی پوری زندگی احیائے اسلام، تجدید دین اور احیائے سنت کے لئے وقف کریں گے۔ فرماتے ہیں کہ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد ظاہری اور باطنی طورپر ہمیشہ مجھے دین اسلام کی خدمت کرنے کے لئے کمربستہ رہنے کے لئے اپنی گراں قدر ہدایات، نصائح، نوازشات اور دعاؤں سے نوازا اور میں نے کئی بار زندگی میں یہ محسوس کیا کہ میں ہر لمحہ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی حفاظت اور تائید میں رہا ہوں۔ حضور شیخ الاسلام پر آپ رحمۃ اللہ علیہ کی نوازشات کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے بزرگ پیر بھائی حاجی عبدالرشید قادری (فیصل آباد) بیان کرتے ہیں۔
’’مجھے 1967ء میں فیصل آباد میں حضور پیر و مرشد رحمۃ اللہ علیہ کے دست حق پر بیعت کا شرف حاصل ہوا اور ہر سال کوئٹہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے در دولت پر حاضری کی سعادت ملتی رہی۔ یہ غالباً 72-73ء کا واقعہ ہے کہ ہم چند پیر بھائی کوئٹہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت اقدس میں حاضر تھے۔ برآمدہ میں حضور پیر صاحب ہمارے ساتھ محو گفتگو تھے کہ اسی اثناء میں حضور کے خادم نے اطلاع دی کہ جھنگ سے جناب محمد طاہرالقادری صاحب تشریف لائے ہیں۔ حضور پیر صاحب نے کھڑے ہوکر خوش آمدید کہتے ہوئے خیر مقدم فرمایا اور حضور شیخ الاسلام کو اپنے گلے لگالیا۔ ہم نے اس سے قبل حضور کو کسی سے معانقہ فرماتے نہ دیکھا۔ بڑی بڑی قد آور شخصیات کو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی کرتے دیکھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ ان کا کھڑے ہوکر خیر مقدم فرماتے مگر معانقہ نہ فرماتے تھے۔
ہم سب حیران تھے کہ نوجوان لڑکا ہے۔ لاغر سا جسم ہے ابھی ٹھیک سے ریش مبارک بھی نہیں آئی۔ یہ کون خوش قسمت ہے۔ شیخ الاسلام سیاہ قراقلی ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ساتھ والی سیٹ پر بٹھایا اور ہم سب سے توجہ ہٹاکر شیخ الاسلام سے دیر تک خیرو عافیت دریافت فرمائی۔ جب حضور رحمۃ اللہ علیہ اندر تشریف لے گئے تو ہم سب ساتھی شیخ الاسلام کے گرد جمع ہوگئے۔ تعارف حاصل کیا اور ہم سب نے برملا حیرانگی کا اظہار کیا تو شیخ الاسلام نے کمال انکساری سے فرمایا ’’یہ سب ان کا کرم ہے ورنہ مجھ میں کیا ہے‘‘۔ وہ رات ہم نے مہمان خانہ میں اکٹھے بسر کی۔ دیر تک گفتگو چلتی رہی۔ اس وقت بھی قائد محترم کے اندر احیائے دین کا ایک ولولہ موجزن پایا۔ اسی طرح 1983ء میں حضور پیر و مرشد فیصل آباد تشریف لائے تو میرے غریب خانہ کو رونق بخشی۔ اسی دوران تینوں دن قائد محترم ہر دعوت و تقریب میں حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ رہے۔ کسی وجہ سے اگر کبھی قائد محترم آگے پیچھے ہوجاتے تو جب تک حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ انہیں بلاکر اپنے ساتھ نہ لیتے اس وقت تک تمام کاروائی رکی رہتی۔
مئی 1982ء میں ہم نے فیصل آباد میں ایک پروگرام ’’قرآن کانفرنس‘‘ کے نام سے ترتیب دیا۔ صدارت کے لئے حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں التجا کی جو انہوں نے مان لی لیکن بعد میں خرابی صحت کی بنا پر تشریف لا نہ سکے۔ اس کانفرنس میں قائد محترم کا خصوصی خطاب تھا لیکن ان کے ساتھ ایک نامور قاری بھی تشریف لارہے تھے تو حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ٹیلیفون پر سختی سے تلقین فرمائی کہ خبردار ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے مقابلہ میں کسی اور کو اہمیت نہیں دینی۔ اس سے حضور پیرومرشد رحمۃ اللہ علیہ کی شفقت بھری نگاہوں میں قائد محترم کی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔
ایک مرتبہ غالباً 1987ء میں ہم بڑی گیارہویں شریف پر کوئٹہ حاضر ہوئے۔ جالی والے برآمدے میں ہم آپ کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ رحمۃ اللہ علیہ کا منشی محمد شعبان کافی خطوط لے کر جواب لکھوانے کے لئے حاضر ہوا۔ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری موجودگی میں جواب لکھوانے شروع کردیئے۔ منشی صاحب چٹھی پڑھ کر سناتے تو حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ چند لفظوں یا جملوں میں جواب فرما دیتے۔ اکثر خطوط میں پریشانیوں کا ذکر اور دعا کی درخواست تھی۔ ان میں ایک چٹھی سرگودھا سے تھی۔ لکھنے والے کا نام اب یاد نہیں رہا۔ اس نے لکھا تھا کہ مجھے شیخ کامل کی تلاش تھی۔
’’ایک رات ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا سرگودھا میں خطاب سنا جو دل کو خوب لگا۔ جستجوئے شیخ کی غرض سے استخارہ کیا تو ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی عالم خواب میں زیارت ہوئی۔ دوبار مزید استخارہ کیا تو ہر بار ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی زیارت ہوتی رہی۔ لاہور ان کی خدمت میں پہنچا، بیعت کرنا چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے زندگی بھر پیری مریدی نہ کرنے کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ میرے اصرار کرنے پر انہوں نے آپ حضور رحمۃ اللہ علیہ کا نام لیا۔ اجازت ہو تو مرید ہونے کے لئے حاضر ہو جاؤں‘‘۔
حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ چٹھی سننے کے دوران مسکراتے رہے۔ پھر فرمانے لگے ’’ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی ہمارا بیٹا ہے میں نے کئی بار خلافت لینے کو کہا ہے مگر وہ مانتا نہیں لکھ دو اجازت ہے‘‘۔
ایک دفعہ ہم قائد محترم سمیت کوئٹہ حاضر تھے۔ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ اسی دن کراچی سے تشریف لائے تھے۔ قائد محترم خصوصی مہمان خانہ میں تھے اور ہم لان میں دست بستہ کھڑے تھے۔ خادم نے آواز دی کہ مجھے اور حاجی عنایت اللہ کو محترم ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب بلارہے ہیں۔ ہم حاضر ہوئے، کمرہ میں قائد محترم، حاجی عنائت اللہ اور ہم دونوں کل چار آدمی تھے کہ حضور قبلہ پیرومرشد رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے۔ ہم نے دست بوسی کی اور سلام عرض کیا۔ حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے قائد محترم سے گذشتہ ملاقات سے اب تک کے تمام پروگراموں کے حالات پوچھنے شروع کئے۔ حلفاً عرض کرتا ہوں کہ جس طرح ایک آفیسر اپنے ماتحت سے مکمل کارگزاری طلب کرتا ہے یہاں بھی یہی صورتحال تھی۔ ہم حیران تھے حضور پیرومرشد رحمۃ اللہ علیہ کی تحریک منہاج القرآن کے پروگراموں کے ساتھ کتنی دلچسپی ہے اور کس طرح ہر حال سے واقف ہیں۔ اسی دوران ایک مولانا کا ذکر بطور خاص حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ’’وہ میرے متعلق اپنے پیر خانہ سے رجوع کیوں نہیں کرتا، مولوی صرف حسد کرتے ہیں‘‘۔
کئی بار یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ بڑی بڑی قد آور شخصیات اپنی اپنی مذہبی کانفرنسوں، درس اور دیگر تقریبات میں برائے صدارت یا مہمان خصوصی کی دعوت لے کر حاضر ہوئیں، آرام و قیام کی ضمانتوں کے ساتھ انتہائی منت سماجت کرتیں مگر حضور پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کسی کی دعوت کو شرف قبولیت نہ بخشا۔ بعض دفعہ کئی تنظیموں نے اشتہاروں میں آپ کا نام چھاپ دیا۔ جس پر اکثر آپ نے فرمایا:
’’دیکھو میرا نام بیچتے ہیں جبکہ میں نے دعوت قبول نہیں کی تو بغیر اجازت نام کیوں چھاپا‘‘ مگر قربان جائیں تحریک منہاج القرآن کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی شفقت پر کہ قائد محترم کی ایک دعوت بھی مسترد نہ ہوئی۔ ادارے کے سنگ بنیاد سے لے کر آخری وقت تک ہر پروگرام کی مکمل سرپرستی اور کانفرنسز کی صدارت فرمائی۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے 1984ء میں ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا جو آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خصوصی دعاؤں کے نتیجے میں صرف پونے دو سال کے قلیل عرصے میں پایہ تکمیل کو پہنچ گیا اور اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم سے اس مقام پر فائز ہے کہ آج پوری عالم انسانیت کے لئے چشمہ فیض کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
حضور شیخ الاسلام کی خصوصی دعوت پر 10 مارچ 1987ء بروز منگل بذریعہ تیزگام کراچی سے لاہور تشریف لائے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے استقبال کے لئے قائد محترم کی قیادت میں لاہور ریلوے سٹیشن پر مریدین و معتقدین کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اپنے روحانی مرشد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب تھا۔ جامعہ کے بیس طلباء پر مشتمل ایک چاق و چوبند حفاظتی دستہ پلیٹ فارم کے جنگلے کے ساتھ مستعد کھڑا تھا۔ گاڑی کی آمد کا سگنل ڈاؤن (Down) ہوتے ہی لوگوں میں جذبات عقیدت و محبت نے ایک قابل دید ہلچل مچادی اور فضا ’’نعرہ تکبیر، نعرہ رسالت، نعرہ غوثیہ‘‘ اور ساڈا پیر دستگیر کی صداؤں سے گونج اٹھی۔ جونہی ٹرین پلیٹ فارم پر آئی اس پر گلاب کی پتیاں بارش کی طرح برسنے لگیں۔ ایک عجیب عالم کیف مستی تھا۔ ٹرین کے رکتے ہی قائد محترم حضور پیر صاحب کے صاحبزادگان سید عبدالقادر جمال الدین القادری اور سید محمد ضیاء الدین القادری کے استقبال کے لئے ان کے مختص ڈبے میں داخل ہوئے۔ قائد محترم کی معیت میں ادارہ کے عہدیداران نے بھی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔ جب حضرت والا ٹرین سے اترنے کے لئے ڈبے کے دروازے پر آئے تو نعروں اور پھولوں کی بارش میں مزید تیزی آگئی۔ ایک طرف گلاب کی پتیوں کا رقص جاری تھا اور دوسری طرف ’’شہزادہ غوث الوریٰ‘‘ مرحبا مرحبا کی صدا بلند ہورہی تھی۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے دست مبارک ہلا ہلا کر لوگوں کے نعروں کا جواب دیا اور پھر تمام حاضرین، ادارہ منہاج القرآن اور استحکام پاکستان کے لئے دعا فرمائی۔
اسٹیشن سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو کاروں، ویگنوں اور موٹر سائیکلوں کے جلوس کے جلو میں براستہ ڈیوس روڈ، نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے، نیو کیمپس، گارڈن ٹاؤن اور فیصل ٹاؤن سے ہوتے ہوئے ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ لایا گیا جہاں پہنچ کر گاڑی سے اترتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ادارہ کی ترقی اور غلبہ اسلام کی اس عظیم تحریک کامیابی کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔ اس کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سیکرٹریٹ کے صدر دروازے پر تشریف لائے اور یہاں کھڑے ہوکر وابستگان ادارہ کو اپنی خصوصی دعاؤں سے نوازا۔ یہاں سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو قائد محترم اپنی رہائش گاہ پر لے گئے جو ادارہ کے قریب واقع ہے۔
بعد نماز مغرب قائد محترم کی رہائش کے سامنے واقع پارک میں محفل میلاد منعقد ہوئی جہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی تشریف آوری پر تمام حاضرین ادب و احترام سے کھڑے ہوگئے اور محفل نعرہ ہائے تکبیر و رسالت سے گونج اٹھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ اسٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ دائیں بائیں دونوں صاحبزادگان تشریف فرما تھے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ نے حاضرین کے عالم کیف و مستی کو عجیب روحانی لذتوں سے سرشار کردیا۔
اس روح پرور محفل میلاد کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے جامع مسجد منہاج القرآن کا افتتاح فرمایا۔ ہزاروں افراد نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اقتداء میں نماز عشاء ادا کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہزاروں افراد کی موجودگی میں مرکزی سیکرٹریٹ ادارہ منہاج القرآن کا افتتاح فرمایا اور ادارے کے صدر دروازے کے اوپر قومی پرچم اور ادارے کے پرچم لہرائے۔ پرچم کشائی کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہ خداوندی میں استحکام پاکستان اور غلبہ اسلام کے لئے خصوصی دعا فرمائی۔ اس موقع پر قائد محترم کی کیفیت قابل دید تھی۔ جذبات کا ایسا طوفان امڈ آیا تھا جس نے ان کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی کیفیت بے خودی طاری کردی تھی۔ بعد ازاں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کا افتتاح فرمایا اور جامعہ کے اساتذہ و طلباء کے ساتھ ایک خصوصی نشست فرمائی۔ تمام طلباء آپ کے سامنے فرش پر بیٹھے تھے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے طلباء کو عربی زبان میں پندو نصائح سے نوازا اور دریافت فرمایا کہ آیا وہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی بات سمجھ گئے ہیں یا نہیں۔ اس پر قائد تحریک نے درخواست کی کہ چند ناصحانہ کلمات اردو زبان میں بھی ادا فرما دیجئے۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ طلباء سے گویا ہوئے!
’’آپ رحمۃ اللہ علیہ ملت اسلامیہ کا مستقبل ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دور حاضر کی امڈتی ہوئی گمراہیوں کا مقابلہ کرنا ہے، خود کو علم و عمل میں اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل بناؤ‘‘۔
اس مرحلے پر شیخ الاسلام یہ عرض کرتے ہوئے بے اختیار آپ رحمۃ اللہ علیہ کے قدموں میں گر گئے۔ ’’حضور رحمۃ اللہ علیہ آپ ہمارے مستقبل کی عزت اور وقار ہیں‘‘۔ درد و سوز کی ایک عجیب کیفیت چھاگئی۔ طلباء اور اساتذہ کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے اور وہ اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔
ان آنسوؤں، آہوں، سسکیوں اور ہچکیوں کی فضا میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی آواز بلند ہورہی تھی۔ ’’تم کامیاب ہوگے اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ تمہارے ذریعے اسلام کو غلبہ ملے گا‘‘۔
بہر حال یہ کیفیت جذبہ ایمانی کا اظہار تھا جسے اہل دل اور اہل درد خوب سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے بعد مرکزی سیکرٹریٹ میں سینکڑوں کی تعداد میں منتظر خواتین و حضرات نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے دست مبارک پر بیعت کرکے سلسلہ قادریہ سے منسلک ہونے کا شرف حاصل کیا۔ حضور پیر صاحب نے پہلی دو روزہ منہاج القرآن کانفرنس کی صدارت فرمائی۔ منہاج القرآن کانفرنس کے دوسرے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے JUP کے رہنما حاجی محمد حنیف طیب نے کہا!
’’ادارے کے ہزارہا رفقاء و اراکین نے گذشتہ شب شدید بارش کے باوجود جس ذوق و شوق اور استقلال و استقامت کے ساتھ کانفرنس میں شرکت کی ہے وہ نہ صرف حیرت انگیز اور مسرت افزاء ہے بلکہ یہ واقعہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ عام مشاہدہ کی بات ہے کہ اجتماعات معمولی سی بارش سے منتشر ہوجایا کرتے ہیں لیکن گذشتہ شب رب العزت نے ہمارے شوق اور جذبے کا امتحان لیا جس میں اسی کی توفیق اور نصرت سے ہم کامیاب و کامران ہوئے۔ اگرچہ میں خود گذشتہ رات کے پروگرام میں شریک نہیں ہوسکا لیکن شرکاء کی دلبستگی و ایثار کی جو کیفیت مجھ تک پہنچی ہے اس سے مجھے یقین ہوگیا ہے کہ منہاج القرآن کا مشن حق ہے۔ ناموافق موسم بادو باراں کے دوران سردی سے ٹھٹھرنے کے باوجود ہزارہا لوگ جذبہ ایمانی کے بل بوتے پر جس طرح کئی گھنٹوں تک مسلسل جم کر بیٹھے رہے اس سے بڑھ کر اس تحریک کی صداقت کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔ الحمدللہ عزم و استقلال کے اس عظیم الشان مظاہرے میں مشن کی صداقت داعی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے صدق و اخلاص اور حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین قدس سرہ العزیز کی پرکشش روحانی شخصیت کا فیضان کارفرما ہے۔ اس نسبت کے اعزاز سے آپ قابل صد رشک بھی ہیں اور لائق مبارکباد بھی۔ رب العزت نے آپ کو دوسری نعمت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں عطا کی ہے جو آج کے دور میں امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی علامت اور حضرت قبلہ پیر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان کا سرتاپا مجسم پیکر ہے‘‘۔
حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے ہر موقع پر قائد تحریک کی سرپرستی و راہنمائی فرمائی۔ انٹرنیشنل اسلامک کانفرنس لندن کی پوری پوری راہنمائی فرمانے کے ساتھ صدارت فرمائی۔ ختم نبوت کانفرنس مینار پاکستان مرزا طاہر کے مباہلہ کے جواب کے لئے منعقد ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے خرابی صحت کے باوجود صدارت فرمائی۔ منہاج القرآن کانفرنس کراچی میں منعقد ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے سرپرستی و صدارت فرمائی اسی طرح غوث اعظم کانفرنس 1990ء میں منعقد ہوئی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی صدارت فرما کر یاس و قنوتیت کو جڑوں سے اکھاڑ دیا۔
چوبرجی کوارٹرز گراؤنڈلاہور میں منعقد ہونے والی عظیم الشان غوث الاعظم کانفرنس کو اس لحاظ سے امتیازی حیثیت حاصل تھی کہ انتخابات میں باطل طاغوتی قوتوں کے ایجنٹوں نے مصطفوی انقلاب کے ریلے کو جس مذموم طریقے سے روکنے کی کوشش کی تھی اور مصطفوی انقلاب کے مجاہدوں کے حوصلے پست کرنے کے لئے جس مذموم پراپیگنڈہ اور تضحیک آمیز بیانات کا سلسلہ شروع کررکھا تھا ایسی فضا میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا پیرانہ سالی، علالت و نقاہت کے باوجود خصوصی نوازش فرماتے ہوئے کمال شفقت سے تشریف لانا کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں تھا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کے اس ورود مسعود نے مصطفوی انقلاب کے سپاہیوں کو ولولہ تازہ کی نعمت عظمیٰ سے فیضیاب کرکے سوئے منزل عزم و استقلال سے گامزن رہنے میں مہمیز کا کام دیا تھا۔
13 مارچ 1987ء آپ رحمۃ اللہ علیہ ایک پرجوش جلوس کے جلو میں منہاج القرآن یونیورسٹی کیمپس کا سنگ بنیاد رکھنے کے لئے ٹاؤن شپ (بغداد ٹاؤن) تشریف لے گئے تھے۔ جہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا عظیم الشان استقبال کیا گیا۔ فضا فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ سنگ بنیاد رکھنے کے بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہ خداوندی میں دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ترویج و ترقی کے لئے ادارہ منہاج القرآن کی کاوشوں کو کامیابی سے ہمکنار ہونے کی دعا نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ فرمائی۔
یاد رہے کہ ٹھیک پانچ سال بعد آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار بھی یہیں بنا۔ اس کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے یونیورسٹی کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ یہاں سے آپ رحمۃ اللہ علیہ کو جامع مسجد اتفاق، ماڈل ٹاؤن لے جایا گیا۔ جہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے منہاج القرآن کانفرنس کے دوسرے اجلاس کی صدارت فرمائی یہاں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک جھلک دیکھنے والوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ ہزارہا افراد دیدہ دل فرش راہ کئے بیٹھے تھے۔ ہر دل میں عقیدتوں کے عرفان مچل رہے تھے۔ عجیب پر کیف فضا میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کا استقبال کیا گیا۔ نماز جمعہ کی امامت آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمائی۔ لاکھ سے زائد فرزندان اسلام نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کی۔ نماز کے اختتام پر حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے خصوصی دعا فرمائی۔
بعض حضرات رحمۃ اللہ علیہ نے تحریک منہاج القرآن اور داعی تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی تو حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے علماء ومشائخ اور وابستگان سلسلہ قادریہ کے نام ایک پیغام جاری کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔
’’کافی حضرات نے پاکستان میں ہم سے مریدی اور خلافت لیا ہے اور جس کو خلافت ہم نے دی ہے وہ مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لئے دی گئی ہے اور میں کسی ادارہ یا انجمن کی تکفیر کرنے والا نہیں۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت لوگوں نے کی ہے جو کہ ہم سب حنفیوں کے امام ہیں اور مجھے بہت افسوس ہے کہ ایک مسلک، ایک مکتبہ فکر، بھائی بھائی کے امر پر کفر کے فتوے لگا رہا ہے۔ چنانچہ تمام علماء و مشائخ سے کہوں گا کہ وہ اسلام کی ظاہر و باطن خدمت کریں اور تقویٰ اختیار کریں اور دل کو حسد اور کینہ سے پاک کرلیں۔ بغض، عناد اور اپنے پیر بھائیوں کے درمیان منافرت اور مشائخ عظام پر کیچڑ اچھالنا، علماء کی تکفیر کرنا مسلک کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ ہر انسان کے اندر خوبی اور خامی موجود ہے۔ خدواند تعالیٰ انسان کو کفر اور بدی سے بچائے۔ تحقیق، اجتہاد اور فتویٰ اس کے لئے کبھی موافق اور کبھی مخالف ہے۔ عالم اور محقق اگر اس میں خطا کرے تو اسے ایک ثواب مل جاتا ہے اور اگر درست کیا تو اسے دو ثواب ملیں گے۔ ادارہ منہاج القرآن کے کام سے ہم بہت مطمئن ہیں۔ وہ طریقہ قادریہ اور مذہب اسلام کی عالمگیر سطح پر خدمت کررہا ہے۔ اس کی خدمت سے سلسلہ قادریہ اور اسلام کو فائدہ ہے۔ اس پر کیچڑ اچھالنا اور اس کے اوپر تکفیر کرنا سخت ناگوار اور نقصان دہ کوشش ہے۔ ہرکسے باشد جو بھی اس ادارہ کو نقصان پہنچارہا ہے۔ وہ خود کو طریقہ قادریہ پر نہ سمجھے اور یہ بھی خیال نہ کرے کہ وہ اسلام کی کوئی خدمت کررہا ہے بلکہ مذہب کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے۔ چنانچہ تمام علمائے کرام، مشائخ عظام اور سنی حنفی برادران، بالخصوص مریدان حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ دستگیر سے التماس ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے ادارہ منہاج القرآن سے وابستگی اختیار کریں اور اس کی خدمت کریں‘‘۔
تبصرہ