مڈٹرم انتخابات یا عوامی انقلاب (قیوم نظامی - نوائے وقت لاہور)
نامور صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے اور اسکے ردعمل پر ایک چینل کی مہم جوئی نے پاکستان کا منظر نامہ ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔ ریاستی اداروں کے درمیان صف بندی ہورہی ہے، سنگین چیلنجوں کے ماحول میں پاکستانی قوم کو اتحاد و یکجہتی کی ضرورت تھی مگر بدقسمتی سے قوم تقسیم ہورہی ہے۔ پاکستان کے دشمن خوش ہیں پاکستان اندر سے کمزور ہورہا ہے۔ ادارے ایک قدم پیچھے ہٹنے پر مائل نظر نہیں آرہے۔ اگر سلامتی کے ادارے کو تنقید اور تضحیک کا نشانہ نہ بنایا جاتا تو 11مئی 2014ء کو سیاسی جوش و خروش نظر نہ آتا۔ تحریک انصاف کی قیادت ڈی چوک اسلام آباد ریلی کے بارے میں فکر مند تھی۔ حکومت روایتی ہتھکنڈے استعمال کرکے ریلیوں کو ناکام بنانے کی کوشش کررہی تھی۔ حکومتی رکاوٹوں کے باوجود تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی ریلیوں کو کامیاب قراردیا گیا۔ عمران خان نے خطاب کے آغاز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ‘‘نوجوانوں آپ کا شکریہ آپ نے میری عزت رکھ لی’’۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ابھی ایک سال پورا کیا ہے لہذا سیاسی بلوغت کا تقاضہ یہ ہے کہ ابھی کھلے لفظوں میں مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ نہ کیا جائے البتہ ایجنڈا اور حکمت عملی اس طرح طے کی جائے جس کے نتیجے میں مڈٹرم انتخابات کے امکانات روشن ہوجائیں۔ زرداری حکومت کے نائب وزیراعظم چوہدری پرویز الٰہی نے عندیہ دیا کہ حکومت کیخلاف گرنیڈ الائینس قائم کیا جائیگا۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں اس تجویز کی تائید کی گویا ایک اور آئی جے آئی کی منصوبہ بندی ہورہی ہیں۔ آئین کیمطابق نئے انتخابات 2018ء میں ہونگے مگر چار سال قبل ہی سڑکوں پر حکومت کیخلاف عوامی اور سیاسی اتحاد کے مناظر نظر آنے لگے ہیں۔کیا تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ کیا 1977ء کا سکرپٹ لکھا جاچکا اس قدر ترمیم کے ساتھ کہ طاقتور ادارہ ہر صورت سیاست سے الگ رہے گا البتہ ممکنہ مڈٹرم انتخابات کیلئے فضا اگر تیار ہوسکے تو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائیگی۔ اس سکرپٹ میں لحظہ لحظہ رنگ بھرا جائیگا۔ عمران خان کو یقین ہے کہ اگر انکا مطالبہ تسلیم کرلیا جائے اور قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرالی جائے تو دھاندلی بے نقاب ہوجائیگی اور اسکے بعد پورا انتخاب ہی مشکوک ہوجائیگا۔ حکومت کے پاس اقتدار میں رہنے کا اخلاقی اور قانونی جواز ہی باقی نہیں رہے گا۔ پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت مڈٹرم انتخابات کی مخالفت نہیں کرسکے گی۔ تحریک انصاف نے حکومت پر دباؤ بڑھانے کیلئے فیصل آباد میں احتجاجی جلسے اور ہر جمعہ کو الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے نامور وکیل کیمطابق 11 مئی 2013ء کے انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کیمطابق نہیں کرائے گئے اس لیے عدالت ان انتخابات کو آئین اور قانون کے منافی قرار بھی دے سکتی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی اور سپریم کورٹ کے فیصلے سے انحراف کے سلسلے میں ایک پٹیشن عدالت کے زیر سماعت ہے۔ تحریک انصاف نے پارلیمنٹ کے اندر بھی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ الیکشن کمیشن کو بااختیار، غیر جانبدار اور غیر سیاسی بنانے کیلئے نئی قانون سازی کی جاسکے۔ تحریک انصاف اپنے مطالبات تسلیم کرانے کیلئے ہر دستیاب فورم پر اپنی سرگرمیاں تیز کردیگی۔ انتخابات میں دھاندلی کے ثبوت منظر عام پر آنے کے بعد مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کیا جائیگا۔ عمران خان کو یقین ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی، دھونس اور دھن سے کام لے کر تحریک انصاف کا مینڈیٹ چرالیا لہذا اب وہ عوامی دبائو ڈال کر مسلم لیگ (ن) سے حکومت چھین لیں گے اور مڈٹرم انتخاب میں اپنا مینڈیٹ واپس لے لیں گے۔ پارلیمانی جوڑ توڑ کے ماہر ایک سیاستدان کیمطابق مسلم لیگ (ن) کا فارورڈ بلاک بھی سامنے آسکتا ہے اور تبدیلی ایوان کے اندر سے بھی آسکتی ہے۔ میاں نواز شریف اگر افواج پاکستان سے کشیدگی اور تناؤ ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ان کیخلاف سازشیں دم بھی توڑ سکتی ہیں۔ وگرنہ ستمبر 2015ء میں مڈٹرم انتخابات بھی ہوسکتے ہیں یا عوامی انقلاب بھی برپا کیا جاسکتا ہے۔ مڈٹرم انتخابات قومی مسائل کا حل نہیں ہیں استحصالی طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد پارلیمنٹ کے موجودہ چہرے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوکر پارلیمنٹ میں پہنچ جائینگے اور پاکستانی سیاست میں جوہری تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ میاں نوازشریف اگر حب الوطنی اور سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کریں تو وہ قومی اسمبلی کے چار حلقوں میں دھاندلی کے ثبوت سامنے آنے کے بعد عمران خان کو نصف مدت کے بعد حکومت بنانے کی دعوت بھی دے سکتے ہیں تاکہ جمہوریت اور مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہے اور مڈٹرم انتخابات سے ملک عدم استحکام کا شکار نہ ہو۔
عمران خان کے مقابلے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے خطاب کو عمومی طور پر سراہا گیا انکے خطاب میں حکمت اور دانائی نظر آئی۔ عمران خان کی نظر وزارت عظمیٰ کے منصب پر ہے جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستانی سیاست کی بیماریوں کی درست تشخیص کررہے ہیں اور ان بیماریوں کے علاج کیلئے نسخہ بھی تجویز کررہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ ریاست کا موجودہ نظام ناکارہ، فرسودہ اور غیر مؤثر ہوچکا ہے جسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ موجودہ نظام چونکہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں ، اشرافیہ اور ان کے کاسہ لیسوں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے لہذا وہ اس نظام کو جوں کا توں رکھنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرینگے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری سٹیٹس کو توڑ کر نیا نظام لانے کیلئے عوامی طاقت کو منظم کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک نے 11مئی کو پاکستان کے 60 شہروں میں کامیاب عوامی ریلیاں کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کا مؤقف بڑا واضح ہے کہ جب تک انتخابی نظام میں انقلابی تبدیلیاں لاکر حقیقی عوامی جمہوریت کا نظام وضع نہ کیا جائے پاکستان میں سماجی جمہوریت کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ حقیقی جمہوریت کیلئے لازم ہے کہ عوام متحد اور منظم ہوکر عوامی انقلاب برپا کریں۔ اس انقلاب کے نتیجے میں محب الوطن، اہل اور دیانتدار افراد پر مشتمل وسیع البنیاد قومی حکومت قائم کی جائے جو نیا انتخابی، سیاسی اور معاشی نظام تشکیل دے اور نئے نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیںتاکہ کرپٹ اشرافیہ سے نجات حاصل کی جاسکے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں عوامی انقلاب کیلئے قومی ایجنڈے کا خاکہ پیش کردیا ہے جو عوام کی آرزوؤں اور تمنائوں کا غماز ہے۔ قومی ایجنڈے کیمطابق ہر بے گھر خاندان کو تین سے پانچ مرلے کا پلاٹ مفت دیا جائیگا اور گھر کی تعمیر کیلئے آسان شرائط پر بلاسود قرضہ دیا جائے گا جو 25 سال میں قابل واپسی ہوگا۔ ہر نوجوان کو روزگار یا بے روزگاری الائونس دیا جائیگا۔ ایسے گھرانے جن کی ماہانہ آمدنی پندرہ ہزار روپے سے کم ہے ان کو آٹا، چاول، چینی، گھی ،کپڑا اور دیگر بنیادی اشیاء نصف قیمت پر فراہم کی جائیں گی۔ بجلی، گیس، پانی اور فون کے بلوں پر تمام ٹیکس ختم کردئیے جائینگے۔ شہریوں کو تعلیم اور صحت کی مفت معیاری سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ بے زمین کسانوں کو اراضی الاٹ کی جائیگی۔ خواتین کو مساوی حقوق اور مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ سینئر اور جونئیر سرکاری اور نجی ملازمین کی تنخواہوں میں فرق کو کم کیا جائیگا۔ طاقت اور کرپشن کے مرکزوں کو توڑنے کیلئے ہر ڈویژن کو صوبہ بنادیا جائیگا اور ہر یونین کونسل میں ماڈل مقامی حکومت قائم کی جائیگی۔ ہر یونین کونسل میں ایک جج تعینات کیا جائیگا تاکہ عوام کو فوری اور سستا انصاف فراہم کرنے کیلئے عدلیہ اور انصاف کا دائرہ ضلع اور ڈویژن تک پھیلا دیا جائیگا۔ ہر مقدمے کا فیصلہ تین ماہ کے اندر کرنا لازمی ہوگا۔ پاکستان کے عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنے اور قومی مسائل کے حل کیلئے عوامی انقلاب کی حمایت کریں کیونکہ جب تک عوامی قوت سے استحصالی نظام کو توڑ کر نیا عوامی نظام تشکیل نہ دیا جائے پاکستان بحرانوں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ پاکستان کو نیوسوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے جو عوامی انقلاب کے بعد ہی تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ ایسے سیاسی تجربات بار بار کیوں کیے جائیں جو ماضی میں ناکام ہوتے رہے ہیں۔
ذرائع: نوائے وقت ڈاٹ کام
تبصرہ