راہِ عمل
(تنویر احمد خان۔ نائب ناظم اعلیٰ تحریک)
اسلام فرد سے لے کر معاشرے تک کی انفردی و اجتماعی فلاح کا متقاضی و ضامن ہے۔ اسلام انفرادی سطح پر ہمارے فکر و عمل ،اخلاق وکردار، طہارت وپاکیز گی، مساوات و مواخات، ایثار و قر بانی اور تنظیم و تعمیر کاخواہاں ہے۔ آج بدقسمتی سے انفرادی سطح پر کردار کا جنازہ اٹھ چکا ہے۔ فرد کے روحانی اور مادی دونوں شعبۂ حیات اضمحلال اور تعفن سے عبارت ہیں۔ انسان کا خدا سے تعلق پراگند گی کا شکار ہے۔ہمارے نفوس غفلت ،سر کشی اور نافر مانی پر آمادہ ہیں۔ انسان اپنا مقصد حیات بھلاکر صحرائے ظلمت میں بھٹکتا پھر تا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہمیں اپنی منزل گم ہو جانے کا شعور اور احساس تک نہیں ہے۔ہر چمکتی چیز آج ہماری سمت اور رفتار کا تعین کر تی ہے ۔ آج ہم مالک حقیقی کو بھلا کر خواہشات نفسانی کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ ہم الو ہی اور روحانی تقاضوں کو فراموش کر کے تخلیق انسانی کے مقصد کو گم کر بیٹھے ہیں ۔ جھوٹ ،دھوکہ ، فریب ، خود غرضی، بے حسی اور مادیت پرستی ہماری رگ رگ میں سرائیت کر چکے ہیں۔ دنیا کو انسانیت و فلاح کا درس دینے والے اسلام کے نام لیواآج جاہل ، گنوار،جھوٹے، بد اخلاق، بد تہذیب، انتہا پسند اور دہشت گرد کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔
انفرادی اور اجتماعی ہر دوسطحوں پرہم بے شعوری، بے علمی،بے حسی اورہمہ گیر زوال کاشکار ہیں ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ایک تو ہمیں اپنی ذلت کااحساس نہیں اور اگر کچھ لوگ حالات کی سنگینی کا ادراک رکھتے بھی ہیں تو انھیں سلجھائو کی کوئی تدبیرسجھائی نہیں دیتی۔ بگاڑاتنا شدید اور زوال اتنا عمیق ہے کہ صاحبان شعوربھی مایوسی اور شکست خوردگی کا شکار دکھائی دیتے ہیں ۔دین یا تو محض رسمی اور مسلکی حیثیت اختیار کر گیا ہے یا دشمنان دین نے انتہا پسندی، دہشت گردی اور خارجیت کواسلام بنا کردنیا بھر میں اسلام اور پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تشخص کو داغدار کر رکھا ہے۔
دوسری طرف قومی سطح پر سیاست، معیشت، معاشرت، تہذیب اورثقافت سمیت زندگی کے تمام گوشے زبوں حالی اور ابتری کا شکار ہیں۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی بے حسی اور بے عملی کا حا ل یہ ہے کہ ہم ظلم، جبر، بربریت، نا انصافی، کرپشن، لو ٹ مار، بے روز گاری، جہالت، غربت، بیماری سمیت ہر طرح کے مسائل کی جہنم میں جل رہے ہیں مگر اس آگ سے با ہر نکلنے کی کو شش کے بجائے حالات کے سامنے ہتھیار ڈالے بیٹھے ہیں۔ نام نہاد رہنمایان قوم افراد معاشرہ کو مذہبی، مسلکی، سیاسی، لسانی، علاقائی اور نسلی تقسیم میں مبتلا کر کے قو می وحد ت کو پارہ پارہ کر چکے ہیں۔
و حدت اورتعمیر کے شعور کے بجائے تقسیم اور تخریب کا راج ہے۔ غربت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ نصف سے زائد آبادی کو دو وقت کی روٹی کی جستجو نے ایسی مشقت میں ڈال رکھا ہے کہ انھیں اس کے علاوہ کچھ سجھائی ہی نہیں دیتا ۔مجبوریوں اور محرومیوں کے باعث لوگ عزت نفس، جسم حتیٰ کہ جان بھی بیچنے پر مجبور ہیں۔ عام آدمی، اس کے مسائل، دین، اقدار، تہذیب، شرافت، تعلیم، روز گار، انصاف، تحفظ یہ سب حکمران طبقے کی ترجیحات میں فقط سیاسی نعرے ہیں۔حکمرانوں کی مفاد پرستی، کرپشن، نا انصافی اور نا اہلی معاشرتی اور معاشی برائیوں سے لے کر انتہا پسندی اور دہشت گردی تک تمام بگاڑ کا سبب ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی مکمل طور پر زوال آشناہو چکی ہے۔ ایسے میں اگر قوم نہ سنبھلی تو تاریخ گواہ ہے کہ احساس سے عاری بہت سی قو میں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے نیست و نابودہو گئیں یا صدیو ں تک ذلت کے صحرا میں بھٹکتی رہیں۔ خدانہ کرے کہ ہم پر وہ وقت آئے کہ ہم ہمیشہ کیلئے نمونہ عبرت بنا دیئے جا ئیں۔
ان حالات میں جب سبھی خواب غفلت میں مبتلا ہیں نابغہ عصر ڈاکٹرمحمد طاہر القادری نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھتے ہوئے نہ صرف مرض کی تشخیص کی بلکہ اسکے تدارک کیلئے پوری قوت سے میدان عمل میں بھی اترے۔ آج تحریک منہاج القرآن دنیا بھر میں اصلاح احوال، تجدید دین اور احیائے امت کی عظیم عالمگیر تحریک بن چکی ہے ۔ تحریک اور قائد تحریک آج دنیا بھر میں اسلام کے حقیقی سفیر کے طور پر اسلام کا مقدمہ کامیابی سے لڑرہے ہیں۔ سفر کتنا ہی پُر خار اور دشوار کیوں نہ ہو، منزل کی جستجو رکھنے والے اپنا رستہ بنا ہی لیتے ہیں۔ ان شاء اللہ یہ تحریک صدیوں تک امت کی رہنمائی کا فریضہ سر انجا م دیتی رہے گی۔
آپ کو اس عظیم تحریک میں شمولیت پر مبارکباد پیش کر تے ہو ئے خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ کی اس اجتماعیت میں شمولیت نہ صرف آپ کے لیے بلکہ امت اور دین کے لیے خیر کا وسیلہ بن سکتا ہے۔ ہم اپنی صلاحیتیں وسائل اور جذبے اللہ کے دین کی اقامت میں منظم انداز سے صرف کرکے احیائے اسلام میں اپنا بہترین کرادار ادا کرسکتے ہیں۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی نجات کا یقینا یہی بہترین راستہ ہے۔
فرو غ دین اور احیاء امت کی عظیم جدو جہد میں، ہم کیا کرسکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جسے ہمیشہ ہمارے دل و دماغ میں تا زہ رہنا چاہیے۔ یہی سوال ہمارے فکروعمل کا بنیادی محرک بنے گا ۔تحریکی اور تنظیمی مدارج کے ساتھ ساتھ ہماری ذمہ داریاں بڑھتی چلی جائیںگی مگر تحریک کے رفیق کے طور پر ہم میں سے ہرفرد پر کچھ سادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںجنکی بجا آوری ہم پر تنظیمی وتحریکی فریضہ کیساتھ ساتھ انفرادی اوراجتماعی ذمہ داری بھی ہے۔ آیئے اللہ،اپنے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اپنے قائد اور اپنے آپ سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنے شب وروز کو مصطفوی مشن کے تنظیمی تقاضوں کے سانچے میں ڈھالیں گے تاکہ ہم ایک ایسی عظیم اجتماعیت تشکیل دیں جو امت کی عظمت رفتہ کی بحالی کے عمل میں ممدو معاون ثابت ہو۔
تحریک کے رفیق اور مصطفو ی انقلاب کے عظیم سپاہی کے طور پر درج ذیل بعض امور ہمیں روزانہ، بعض ہفتہ وار اور بعض ماہانہ اداکرنے ہیں۔ ہم ہر رات سونے سے قبل چند منٹ اپنی اس ڈائری کو دیں گے اور ان امور سے متعلقہ خانوں میں اس کام کی ادائیگی یا عدم ادائیگی کو درج کریں گے۔ اس طرح سے رفاقت ڈائری سے ہم خود اپنا محاسبہ کرسکیں گے۔
- نماز: تحریک چاہتی ہے کہ اسکا ہر رفیق روزانہ پانچ وقت خدائے بزرگ وبرتر کے سامنے جھکنے والا ہو۔
- قرآن مجید: روزانہ تلاوت قرآن مجید بمعہ تر جمہ ہمیں اپنا معمول بناناہے چاہے چند آیات ہی کیوں نہ ہوں۔
- درود و سلام: حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود وسلام سنت ا لہیہ اور قرآنی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ ہر امتی کے اپنے محبوب نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمسے تعلقی حبّی کا بھی تقاضا ہے ۔ تحریک ربط رسالت صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اورحب نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عالمگیر تحریک ہے۔ یہ امر اسکے ہر وابستہ سے متقاضی ہے کہ وہ ہر روز کم از کم 100بار اپنے آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلمپر درود وسلام پیش کرے۔
- دعوت: جونہی ہم اقامت و احیاء دین کی عظیم دعوت قبول کر کے تحریک کا حصہ بنتے ہیں، تحریک کے تمام مقاصد کا حصول ہماری ذمہ داری بن جاتا ہے۔ بطور ’’رفیق‘‘ دعوت ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے لیے ہم اپنے تمام سماجی تعلقات اور روابط کی فہرست مرتب کریں گے جس میں اپنے دوست، رشتہ دار، ہمسائے، کاروباری، تعلق دار، ادارے کے افراد اور دیگر متعلقین سب شامل ہونگے۔ ا س طویل فہرست میں سے ہم فقط 2ایسے افراد کا انتخاب کریں گے جن کو تحریک کی دعوت دینا نسبتاآسان اور موئثر ہو۔ ہماری دعوتی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ان 2روابط میں سے کم از کم ایک سے دعوتی مقاصدکے تحت روزانہ کسی بھی قسم کا رابطہ ضرور کریں ۔ہمارادعوتی عمل ہمیشہ جاری رہے گا۔ جونہی ہمارے ان روابط میں سے کوئی ایک ہماری دعوت کے زیر اثر تحریک کی رفاقت اختیار کر تا ہے ۔ ہم اس کی جگہ اپنے متعلقین کی فہر ست میں سے کسی نئے فرد کو دعوت کے لیے منتخب کر لیں گے ۔اسی طرح اگر ہم اپنے زیر دعوت افراد میں سے کسی کے بارے میں اس نتیجے پر پہنچ جائیں کہ اس کے ہماری دعوت قبول کرنے کے امکانات بہت کم ہیں تو ہم مذکورہ فرد کی جگہ کسی نئے فرد کو دعوتی روابط میں شامل کر لیں گے ۔ مزید افراد کو بھی دعوت دی جا سکتی ہے مگر صرف اس وقت جب اولاً ہمارے 2منتخبہ افراد تک دعوت مؤ ثرانداز سے پہنچ رہی ہو۔
- خطاب سننا : قائد تحریک شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے خطابات کی صورت میں امت کے پا س عظیم علمی، فکری اوردینی اثاثہ موجو د ہے ۔ یہ ہماری ضرورت اور ذمہ داری ہے کہ اس سے دعوتی،تربیتی، علمی اور نظریاتی مقاصد کا حصول ممکن بنائیں ۔ ہرہفتے میں ایک خطا ب خود سننا اور ایک ایک خطاب اپنے دونوں زیر دعوت افراد کو سنوانا یا دکھانا ہماری تنظیمی ذمہ داری ہے ۔ ہفتے کے جس دن ہم خطاب سنیں یا سنوائیں گے۔
رفاقت ڈائری کے متعلقہ خانے میں تاریخ اور خطاب کاعنوان درج کریں گے۔
- مطالعہ :ـ تحریک اپنے ہر فرد کو علمی طور پختہ دیکھنا چاہتی ہیں ۔ ہمیںہر ماہ قائد تحریک کے عظیم علمی و فکری ذخیرے میں سے کم از کم ایک کتاب( 30 صفحات) کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ رفاقت ڈائری کے مطالعے کے خانے میں تحریکی اور دیگر کتابوں کے مطالعے کی تفصیلات (نام، ابواب، صفحات)کا اندراج ہمیں مزید مطالعہ کی جانب راغب کرنے کا باعث ہوگا۔
- مالیات: رفاقت ڈائری میں درج مالیات کے خانہ میں ہم اپنے ذمے ماہانہ زرتعاون کی ادائیگی اور اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی مالی معاونت کی رقم کااندراج کریں گے۔
- صلہ رحمی: تحریک رسمی مذہبی جماعت نہیں بلکہ مواخات پر مبنی حقیقی اسلامی کردارکی حامل عظیم عالمگیر تحریک ہے۔ تحریک اپنے ہر فرد میں صلہ رحمی ،ایثار اور مواخات کاخالص رنگ پیداکرنا چاہتی ہے۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ارد گرد موجود افراد کے دکھ دردمیں شریک ہوں۔ انکی بیماری پر مزاج پرسی کریں، کسی مرگ کی صورت میں تعزیت کریںاور کسی دکھ یا پریشانی میں دلجوئی کے ساتھ ساتھ ازالے کی عملی کوشش بھی کریں۔ اپنے محدود وسائل میں سے چند روپے ہی کیو ں نہ ہوں، ہم ہر ہفتے کچھ صدقہ ضرور کریں۔
رفاقت ڈائری کے متعلقہ خانے میں ہفتہ وار اس کا اندراج کرنا ہوگا۔ نیز ایسا کو ئی مزیداہم کام جو متعلقہ ہفتے میں سر انجام دیا گیا ہو اسکا اندراج بھی رفاقت ڈائری میں کیا جائیگا ۔
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، مئی 2016ء
تبصرہ