حقیقتِ ایمان اور عشقِ الٰہی
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا خصوصی خطاب
ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
معاون:محمد خلیق عامر
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَلٰـکِنَّ اﷲَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَهُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ.
(الحجرات، 49: 7)
’’لیکن اللہ نے تمہیں ایمان کی محبت عطا فرمائی اور اسے تمہارے دلوں میں آراستہ فرما دیا‘‘۔
اس آیت کریمہ سے دو چیزیں واضح ہورہی ہیں:
- اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ہمارے لیے محبوب کیا۔
- اللہ تعالیٰ ایمان کو ہمارے دلوں کی زینت دیکھنا چاہتا ہے۔
گویا ایمان ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس سے محبت کرنی چاہیے۔ افسوس! ہم نے ایمان کو ایک رسم بنا دیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ اسے حقیقت اور ہمارے دلوں کی زینت دیکھنا چاہتا ہے تاکہ ہمارے دل ایمان سے محبت کریں اور اُس کی حلاوت سے مزین ہو جائیں۔
ایمان کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس ایمان کو ہمارے لئے محبوب کیا اور جسے وہ ہمارے دلوں میں مزین دیکھنا چاہتا ہے، اُس ایمان کی حقیقت کیا ہے؟ آیئے! ایمان کی حقیقت کو سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی زبانی سنتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اَلْإِيْمَانُ شَجَرَةٌ أَصْلُهَا الْيَقِيْنُ وَفَرْعُهَا التُّقٰی.
’’ایمان ایک درخت ہے۔ اس شجرِ ایمان کی جڑ یقین ہے اور اس کی شاخ تقویٰ ہے‘‘۔
شجرِ ایمان کی جڑ تو یقین ہے مگر یہ صرف جڑ سے ہی پھلتا پھولتا نہیں بلکہ اس جڑ کو پانی بھی درکار ہے۔ ایمان کے درخت کی جڑ عشق و محبت کے پانی کا مطالبہ کرتی ہے تب ہی یقین کا تنا بنتا ہے، شجرِ ایمان تناور ہوتا ہے اور اس کی افزائش و بڑھوتری کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی لمحہ بہ لمحہ، روز بروز اور مجلس بہ مجلس تربیت ہوتی تھی، یہی اسلوب آج بھی شجرِ ایمان کو ترو تازہ رکھنے کے لئے ناگزیر ہے۔ شجرِ ایمان قلب کی زمین میں یقین کی جڑ کے ساتھ تب ہی اگتا ہے جب اس کو عشقِ الٰہی اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا پانی ملے گا۔
عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکہنے کو تو دو ہیں لیکن حقیقت میں ایک ہیں۔ اس کی مثال اس موتی کی سی ہے جسے جس رُخ سے بھی دیکھیں تو ہر سمت و رُخ سے اس کا الگ الگ رنگ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ کہیں سے سبز دکھائی دیتا ہے، کہیں سے سرخ، کہیں سے نیلا توکہیں سے کسی اور رنگ کی جھلک نظر آتی ہے۔
اسی طرح کا منظر ہم قوسِ قزح میں بھی دیکھتے ہیں۔پانی کے قطرے سے جب شعاع گزرتی ہے تو سات رنگ دکھاتی ہے۔ قطرہ ایک ہوتا ہے، اس کا اپنا الگ کوئی رنگ نہیں، خود بے رنگ ہے مگر وہ بے رنگ کئی رنگ پیدا کر دیتا ہے۔ سو ایمان بھی اسی طرح ہے کہ جب شجرِ ایمان کو عشق و محبت کا پانی ملتا ہے تو اس کی الگ الگ کیفیات وار دہوتی ہیں۔
روحانی کیفیات کا حصول کیونکر ممکن ہے؟
اللہ رب العزت نے بندوں کے اندر الگ الگ ذوق اور استعدادیں رکھی ہیں۔ کسی شخص کو وضو سے روحانی کیفیت ملتی ہے،کسی کو تلاوت قرآن سے ایک خاص ذوق نصیب ہوتا ہے، کوئی نعتِ رسولِ مقبول میں حلاوت محسوس کرتا ہے۔ الغرض مختلف افراد مختلف اشیاء سے روحانی کیف حاصل کرتے ہیں۔ جس شخص کو محض وضو کرنے سے روحانی کیفیت نصیب ہوتی ہے، اگر اس کا وضو نہیں ہوتا تو وہ بے چینی محسوس کرتا ہے، جونہی وضو کرلیتا ہے تو اس کو ایک قرار آجاتا ہے۔ وہ لوگ اس بات کو آسانی سے سمجھیں گے جو کبھی بے احتیاطی سے کچھ وقت بے وضو گزارتے ہیں، انہیں اندازہ ہوگا کہ اُن پر کچھ دیر کے لئے بھی بے وضو رہنا کس قدر گراں گزرتا ہے۔
مومن کو کبھی بے وضو نہیں رہنا چاہیے۔ وہ وقت، وقت ہی نہیں ہے جو بغیر وضو کے گزرے۔آپ کو بھی ہمیشہ یہ تلقین و تاکید کرتا ہوںکہ ہر وقت وضو سے رہیں۔ اس لئے کہ یہ عمل روحانی کیفیات کا حامل ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ نماز کا وقت آئے تو وضو کریں بلکہ ہر وقت وضو کے ساتھ رہیں۔
جو لوگ دائمی وضو کے ساتھ رہتے ہیں، اُن کو ایک روحانی کیفیت اور حلاوت محسوس ہوتی ہے۔ بغیر وضو کے رہنا ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے حالانکہ وضو کے ذریعے جسم کے اندر کوئی چیز داخل (Inject) تو نہیں کی جاتی۔ بس جسم کے کچھ اعضا کو پانی سے دھوتے ہیں۔ ان اعضاء کو ایک غیر مسلم بھی دھوتا ہے اور مسلم بھی دھوتا ہے پھر بے وضو رہنا بے قرار کیوں کردیتا ہے؟
اگر ہمہ وقت ہر ایک کو وضو سے رہنے کا تجربہ نہ ہو تو اس بات کو غسل کرنے کے حوالے سے دیکھیں۔ بغیر غسل کے ایک دو دن گزرے ہوں تو ہماری جسمانی کیفیت تو ایک ہو گی مگر روحانی و قلبی کیفیت مختلف ہوگی۔ باطن کے اندر فرحت اور ہلکا پن بھی محسوس نہیں ہوتا مگر جب غسل کرتے ہیں تو تب طبیعت کے اندر ایک ہلکا پن آتا ہے۔حالانکہ پانی اور صابن نے جسم کے ظاہر کو صاف کیا ہے، اِس سے معلوم ہوا کہ ظاہر جسم کی طہارت باطن میں بھی طہارت کی ایک کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ اسی طرح جب وضو کرتے ہیں تو یہ اُس سے حاصل ہونیوالی طہارت باطن کی طہارت کا سبب بھی بنتی ہے۔
وضو کے ساتھ ایک نور پیدا ہوتا ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت کے دن اپنے امتیوں کو کیسے پہچانیں گے؟ فرمایا:
ان کے وضو کے مقامات سے پہچانوں گا کہ ان جگہوں سے نور نکل رہا ہو گا۔
(أحمدبن حنبل، المسند، 4/ 207، رقم/ 866)
معلوم ہوا کہ وضو سے نور پیدا ہوتا ہے۔ وضو سے پیدا ہونے والے اس نور کی شعاعیں صرف ظاہر کو ہی روشن نہیں کرتیں بلکہ وہ نورباطن میں بھی اترتا ہے۔ جب مَن کے اندر یہ نور اترتا ہے تو اس سے ایک ہلکا پن، لطافت، راحت اور فرحت پیدا ہوتی ہے۔ یہ کیفیت بوجھ کو ہلکا کر کے طبیعت میں یکسوئی پیدا کرتی ہے۔ پس کئی لوگوں کو طہارت کے ذریعے ایک ایسی کیفیت ملتی ہے جو کسی اور عمل کے ذریعے نصیب نہیں ہوتی۔
کئی لوگ جب قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو تلاوت سے ان کو ایسا کیف اور سرور ملتا ہے کہ کسی اور عمل سے انہیں وہ کیف و سرور نصیب نہیں ہوتا، کچھ لوگوں کو آقا علیہ السلام کی نعت سننے میں وہ کیف و سرور اور لذت ملتی ہے جو کسی اور عمل میں نہیں ملتی، کچھ لوگوں کو نماز میں یہی کیفیت ملتی ہے، کچھ لوگوں کو حلقۂ ذکر میں یہ ذوق ملتا ہے، کچھ لوگوں کو صدقات و خیرات میں یہ کیفیت ملتی ہے، کچھ لوگوں کو حج، عمرہ اور زیارتِ کعبہ میں لطف محسوس ہوتا ہے تو کسی کو گنبد خضریٰ دیکھنے سے خاص راحت محسوس ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں اسی طرح ہیں جس طرح کہ قوس قزح میں قطرہ ایک ہے مگر سات رنگوں کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ ایمان کا نور ایک ہے مگر ہر کسی کو اس کی استعداد کے مطابق کیف دیتا ہے۔
یہ ساری چیزیں دراصل ایمان کی شعاعیں ہیں۔ بندے کو اللہ تعالیٰ نے جس طرح کی روحانی استعداد، روحانی ملکہ اور روحانی کیفیت دی ہے اگر باہر کا عمل اور اندر کی روحانی استعداد و ملکہ ایک جیسے ہوجائیں، اِن کے درمیان باہمی مطابقت ہو جیسے positive اور Negative کرنٹ مل جائیں تو بلب روشن ہو جاتا ہے۔ اسی طرح باہر کے عمل اور اندر کے ملکہ اور استعداد دونوں کا مزاج مل جائے تو بندے کو اللہ کے ساتھ ایک نسبت نصیب ہو جاتی ہے۔
نسبت کیا ہے اور عمل کب فائدہ دے گا؟
اللہ کے ساتھ روحانی تعلق کے پیدا ہونے کا ملکہ و کیفیت نسبت کہلاتا ہے۔ نسبت کی سات قسمیں ہیں:
کسی کو توحید سے ایسا نشہ اور اللہ کے ذکر سے ایسا کیف آتا ہے کہ وہ مجنوں اور دیوانہ ہو جاتا ہے،کسی کو آقا علیہ السلام کے حسن و جمال اور تذکرے سے وہ کیف ملتا ہے کہ وہ حضرت اویس قرنیرضی اللہ عنہ کی طرح دیوانگی محسوس کرتا ہے، کسی کے لیے کوئی عمل کیف کا باعث اور کسی کے لیے کوئی عمل حلاوت کا سبب ہے۔ سمجھانا مقصود یہ ہے کہ یہ تمام محبتیں ایک ہیں خواہ محبت قرآن سے ہو یا نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، کعبۃ اللہ سے ہو یا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، تمام کی حقیقت ایک ہے مگر رنگ جدا جدا ہیں۔
جس طرح اللہ تعالیٰ نے طبیعتیں، ملکات اور استعدادات الگ رکھی ہیں، اسی طرح تمام لوگوں کو ایک ہی جیسا عمل کیف و حلاوت نہیں دیتا بلکہ مختلف اَعمال مختلف کیفیات پیدا کرتے ہیں۔ باہر کا عمل جب اندر کی استعداد و مزاج سے جڑ جائے تو مَن کی بند کلی کھل جاتی ہے، ایسے انفتاح ہوتا ہے۔ جیسے فجر پھوٹتی ہے، اسی طرح دل کے مطلع پربھی ایمان کی فجر پھوٹتی ہے۔
مگر اس کے لیے محبت کا پانی چاہیے۔ اگر طبیعت خشک ہے تو اسے کوئی عمل فائدہ نہیں دے گا۔ سب سے پہلے اسے خشکی کا علاج کرانا چاہیے۔ خشکی کا علاج ظاہری عمل میں نہیں بلکہ محبت میں ہے۔ عشق خشکی کا علاج کرتا ہے،عشق طبیعتوں سے خشکی نکال کر روحانی نمی دیتا ہے، محبت و عشق کا پانی جب طبیعت کی جڑ کو ملتا ہے تو پھر یقین اور تعلقِ الٰہی کا پودا پھوٹتا ہے۔ جو آہستہ آہستہ بڑھتے بڑھتے تنا ور درخت بن جاتا ہے۔
شجرِ ایمان کی شاخیں اور ان کی ہریالی:
سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
’’ایمان کے درخت کی شاخیں تقویٰ ہیں‘‘۔
خالی شاخیں کوئی معنی نہیں رکھتیں اگردرخت کی شاخیں نکل آئیں اوراس کے اوپر پتے اور ہریالی نہ ہو تو سائے کے لیے اس درخت کے نیچے کوئی نہیں بیٹھتا۔ لہٰذا ایمان کی شاخیں تقویٰ سے ہری بھری رہتی ہیں۔ ان شاخوں پر اللہ کی اطاعت کی ہریالی آتی ہے۔ نیک اعمال اصل میں تقویٰ کے پتے اور ہریالی ہیں۔ طاعتوں اور حسنات سے ایمان کا درخت ہرابھرا ہوتا ہے۔ اگر زندگی میں نیک اعمال، نیک اخلاق اور نیک معاملات پیدا نہ کریں تو ایمان کے درخت پر ہریالی نہیں آتی۔ ایمان کا درخت قائم تو رہتا ہے مگر ہریالی نہیں آتی، وہ بے ثمر ہوتا ہے۔ پھل تودور کی بات اس کا تو سایہ بھی نہیں ہوتا،ایسے بے سایہ درخت کے نیچے کوئی نہیں آتا۔
لوگو! دل کی زمین پر ایمان کا درخت اگاؤ۔ محبت کے پانی سے یقین کا تنا مضبوط کرو۔ پھر تقویٰ کی شاخیں اگاؤ اور اس پر اللہ کی اطاعت، عبادات، اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ کی ہریالی لاؤ، جب ہریالی آ جائے تو آخری مرحلہ پر پھل لگتا ہے۔ ایمان کے درخت کا پھل اللہ کی معرفت ہے۔ اس طرح جڑ سے لے کر پھلوں تک کا نظام مکمل ہوتا ہے۔ اس مکمل نظام کی جڑ اور اصل ’’یقین‘‘ ہے۔
’’یقین‘‘ کی اصل کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ اگر شجرِ ایمان کی اصل اور جڑ ’’یقین‘‘ ہے تو پھر اِس ’’یقین‘‘ کی اصل کیا ہے؟ یہ کیسے پیدا ہوگا؟
یاد رکھیں! یقین پیدا کرنے کے لے ایک مسلسل مشق اور ریاضت درکار ہے۔ یقین کی مشق کے لیے اللہ کے امر کے سامنے حسنِ تسلیم مطلوب ہے۔ حسنِ تسلیم یہ ہے کہ بندہ اپنے کسی عمل کے نتیجہ پر نظر نہ رکھے۔ اس مقام پر بندہ نہ مال کو دیکھتا ہے اور نہ مآل کو دیکھتا ہے۔ مال کو نہ دیکھنے کا مطلب ہے دنیوی ثمر کو نہیں دیکھتا کہ مجھے اس عمل سے دنیا ملی یا نہ ملی۔ مآل کو نہ دیکھنے کا مطلب ہے کہ وہ اس عمل کے اخروی اجر کو بھی نہیں دیکھتا کہ اس عمل سے جنت ملی یا نہ ملی، کیا درجہ ملے گا؟ اگر عمل کیا اور درجے پر نگاہ رکھی تو شرکِ خفی ہوگیا۔ اس لئے کہ عمل کرنا تو اللہ کے لیے تھا مگر آپ درجے کے لیے کر رہے ہیں۔ لہذا ’’یقین‘‘ کی اصل ’’حُسنِ تسلیم‘‘ کو اپنانے کی ضرورت ہے اور حُسنِ تسلیم ایک مسلسل مشق سے پیدا ہوتا ہے۔
جوانی کے دور میں ہم نے اپنے دوستوں اور ہم مزاج افراد کے حلقات بنائے ہوئے تھے۔ میرے حلقے میں شامل ہونے کے لیے شرط تھی کہ تہجد کی پابندی ضروری ہوگی۔ ہم صبح تہجد کے وقت بیدار ہوتے۔ فجر کی نماز کے بعد باقاعدہ ورزش کرتے۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ نوجوانوں کو اس طرح کی مثبت سرگرمیوں اور عادات پر لگاتا تھا۔ منہاج القرآن سے وابستہ نوجوان اِس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ جو بننا ہے اس کے لئے یہی نوجوانی کی عمر ہے۔ اس عمر میں جتنی تیزی سے پرواز ہوتی ہے، بعد ازاں اس طرح نہیں ہوسکتی۔ جب جسم ڈھل جاتا ہے تو پرواز کی وہ سکت نہیں رہتی۔ نوجوانی کی عمر اللہ کی نعمت ہے لہذا نوجوان اس عمر میں مثبت رویے اور احسن معمولات کو عادت بنائیں۔
اپنے اندریقین کی اصل یعنی حسنِ تسلیم پیدا کرنے کے لئے ابھی سے محنت و مجاہدہ کریں، ریاضت و مشق کریں۔ منہاج القرآن دراصل عشق کا بازار ہے۔ اس سے سودا لیں اور عشقِ الٰہی اور عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوداگر بن جائیں، اپنے اندر حسنِ تسلیم پیدا کریں۔
ہم سال میں دو بازار لگاتے ہیں۔ ایک بازار ربیع الاول میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے سجتا ہے اور دوسرا بازار دس دنوں کے لیے رمضان المبارک میں عشقِ الٰہی(اعتکاف) کے عنوان سے لگتا ہے۔ اس بازار میں خریداروں کو صدائے عام ہوتی ہے کہ جو آئے سودا خرید لے۔ عشق الٰہی کے اس بازار میں دوکانیں سجتی ہیں۔ جو یہاں سے سودا خریدے گا، وہ اسے جنت کے اس بازار میں کام آئے گا جسے حدیث مبارکہ میں سوق الجنۃ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جس کا جی چاہے یہ سودا لے لے، مگر جس کو پسند نہ آئے وہ برا بھلا نہ کہے۔ سودا اچھا نہیں ہے تو وہ ہمیں واپس دے جائے۔
ایک سال اسی طور طریقے سے جو میں نے سمجھائے ہیں اللہ سے عشق کر کے دیکھیں، آقا علیہ السلام سے عشق کر کے دیکھیں تو ممکن ہی نہیں کہ فرق نہ پڑے اور کیفیات و حلاوت نصیب نہ ہوں۔ رات کے اندھیرے چھا جائیں تو کچھ وقت مصلے پر گزاریں اور اللہ کے عشق اور دیدار میں روئیں، اس سے بخشش اور اس کی قربت کے لیے روئیں، اگر طبیعت عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیف پائے تو عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں روئیں۔ پس شجرِ ایمان کی جڑ یقین ہے اور ’’یقین‘‘ کو عشق و محبت کا پانی میسر آئے تو یہ درخت ہرا بھرا رہتا ہے اور پھل دیتا ہے۔
عشق اول، عشق آخر، عشق کُل
عشق شاخ و عشق نخل و عشق گُل
حقیقتِ ایمان
سیدنا امام باقرؓ نے فرمایا:
لَا يَبْلُغُ أَحَدُکُمْ حَقِيْقَةَ الْإِيْمَانِ حَتَّی يَکُوْنَ فِيْهِ ثَلاثَ خِصَالٍ. حَتّٰی يَکُوْنَ الْمَوْتُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الْحَيَاةِ. وَالْفَقْرُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْغِنٰی. وَالْمَرَضُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الصِّحَّةِ.
’’ایمان کی حقیقت تین خوبیاں پیدا کئے بغیر نہیں ملتی۔جب تک موت زندگی سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔ بھوک و افلاس کو خوشحالی سے زیادہ عزیز جانے۔ مرض (بیماری) کو صحت پر محبوب جانے‘‘۔
آیئے! اِن تینوں امور کا الگ الگ جائزہ لتے ہیں:
1۔ موت کا زندگی سے زیادہ محبوب ہوجانا:
اہلِ عشق اور اہلِ عقل کے ہاں موت اور زندگی کی تعریفیں جدا جدا ہیں۔ ہم اس وقت مرحلۂ حیات میں ہیں، موت بعد میں آنی ہے مگر قرآن جب دونوں کا ذکر کرتا ہے تو موت کو پہلے بیان کرتا ہے اور حیات کا ذکر بعد میں کرتا ہے۔ اس سے مقصود یہ بتانا ہے مومن وہ ہے جو موت کو پہلے رکھے اور حیات کو پیچھے رکھے۔ ارشاد فرمایا:
الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَکُمْ اَيُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً.
(الملک، 67: 2)
’’جس نے موت اور زندگی کو (اِس لیے) پیدا فرمایا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل کے لحاظ سے بہتر ہے‘‘۔
پرکھنا تو عمل کو ہے اور عمل زندگی میں ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جس کو پرکھا جا رہا ہے اس کا ذکر پہلے اور جس میں اجر ملے گا یعنی موت تو اُس کا ذکر بعد میں ہو مگر یہاں الگ اسلوب اختیار فرمایا کہ پرکھا زندگی میں جانا ہے مگر زندگی کا ذکر بعد میں آیا اور موت کا ذکر پہلے فرمایا۔ اس لئے کہ حقیقتِ ایمان یہ ہے کہ موت، زندگی سے محبوب ہو جائے۔ کیوں؟
اس لئے کہ اہل عشق کے ہاں زندگی اور موت میں فرق ہے۔ زندگی فراق کا نام ہے اور موت وصال کا نام ہے۔ ہم اس وقت بچھڑے ہوئے ہیں۔ وہ بچھڑنا اور فراق جس کے ذکر سے مولانا روم نے اپنی مثنوی کا آغاز کیا کہ اس بانسری کو سنو! یہ کیوں روتی ہے؟
فرماتے ہیں کہ یہ بانسری جب سے بانس کی لکڑی سے بچھڑی ہے، جب سے تنے سے کاٹی گئی ہے، اپنی اصل سے جدا ہوئی ہے، تب سے رو رہی ہے۔ یہ تلاش کرتی ہے کہ کوئی دل ایسا ملے جو ہجر اور فراق کی چھری سے ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہو تو اس کو اپنا دکھڑا سنائے۔
کی حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ ملدا
اہلِ عشق موت کو اس لیے پسند کرتے ہیں کہ موت میں وصال ہے، موت میں حجاب اٹھے گا، موت میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں کے دیدار ہوں گے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے۔ اس لئے وہ موت کو پسند کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ جب مومن کی روح نکلے گی تو سب سے پہلے اللہ کے حضور عرش الٰہی پر لے جائی جائے گی۔ کسی کی روح کو سیکڑوں اور کسی کی روح کو ہزاروں ملائکہ ایک جلوس میں لے کر عرشِ الٰہی پر پیش ہوں گے۔ بارگاہ الٰہی میں التجا ہوگی کہ باری تعالیٰ! تیرے مومن بندے کی روح حاضر ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ
’’روح وہاں پیش ہوگی، اس موقع پر وہ دیدار الہٰی سے بہرہ یاب ہوگی اور اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوجائے گی۔ پھر حکم ہوگا کہ اب اسے قبر میں لے جایا جائے‘‘۔
قبر میں اُسے ملائکہ سوالات کے لیے اٹھائیں گے۔ سوال ہوگا:
مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِي حَقِّ هٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ.
(بخاری، الصحيح کتاب الجنائز، باب الميت يسمع خفق النعال، 1/448، رقم/1273)
اسی موقع پر آقا علیہ السلام کا اُسے بے حجاب دیدار ہو گا۔ عمر بھر مومن عاشق ترستا رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہوجائے، عمر بھر وظیفے کرتا تھا کہ خواب میں ہی دیدار ہو جائے۔ قبر کی پہلی شام اُسے خواب میں نہیں بلکہ بیداری میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار ہوگا۔ پوچھا جائے گا ان کے بارے میں کیا کہتا تھا؟ یہ دیدار بھی موت سے متعلق ہے اور اللہ کی بارگاہ کا دیدار بھی موت سے متعلق ہے۔ اس لیے فرمایا: جس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا وہ موت کو ان دیداروں کی وجہ سے محبوب رکھتا ہے۔
زندگی اور موت کی حقیقت
ان عشاق کے نزدیک زندگی تو جدائی اور ہجر و فراق کے دن ہیں۔ موت ختم ہوجانے کا نام نہیں۔ موت سے بندہ فنا نہیں ہوتا۔ اُسی طرح جیسے پیدائش سے بندہ شروع نہیں ہوتا، اس لئے کہ پیدائش انسان کی ابتدا نہیں ہے۔قرآن میں ہے کہ
هَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَکُنْ شَيْئًا مَّذْکُوْرًاo
(الدهر، 76: 1)
’’بے شک انسان پر زمانے کا ایک ایسا وقت بھی گزر چکا ہے کہ وہ کوئی قابلِ ذِکر چیز ہی نہ تھا‘‘۔
وہ شئی مذکور نہ تھا مگر موجود تو تھا، اسی لیے تو اسے نام دیا جا رہا ہے۔ انسان تھا تو اسے کہا جا رہا ہے کہ اس پر ایک زمانہ گزرا ہے کہ اُس کا کوئی ذکر نہیں تھا، اس کے جان پہچان نہیں تھی۔ کوئی جانتا نہیں تھا کہ ہے یا نہیں۔ انسان تو تب بھی تھا۔ گویاپیدائش سے انسان شروع نہیں ہوا۔ اگر پیدائش سے انسان کی ابتدا نہیں ہوئی تو موت سے انسان کی انتہا نہیں ہو جاتی۔ پیدائش بھی ایک دروازہ تھا، جس سے گزر کر انسان ایک گھر سے کوچ کر کے اس دنیا میں آ گیا۔ موت بھی ایک دروازہ ہے کہ جس سے گزر کر ایک دنیا سے کوچ کر کے اگلی دنیا میں چلا جائے گا۔ اس لیے موت کو انتقال کہتے ہیں یعنی منتقل ہونا۔ موت ایک تبادلہ ہے۔ برزخ کے بعد پھر ایک تبادلہ ہوگا جسے یوم حشر کہتے ہیں۔ پھر قیامت بپا ہوگی، اس کے بعد جنت یا دوزخ میں بھیجا جائے گا۔ یہ مرحلے ہیں، ایک سفر ہے۔ موت دراصل اِس عالم سے اُس عالم میں منتقل ہونا ہے جو عالمِ دیدار ہے۔
2۔ فقر کا غنیٰ سے زیادہ محبوب ہوجانا:
حضرت امام باقررضی اللہ عنہ نے حقیقتِ ایمان کو بیان کرتے ہوئے دوسری علامت یہ ذکر فرمائی کہ
اَلْفَقْرُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْغِنٰی.
’’ایمان کی حقیقت اُس کو ملتی ہے جو بھوک و افلاس کو خوشحالی سے زیادہ عزیز جانے‘‘۔
أبو نعيم، حلية الأولياء، 1/ 132
اسی لئے آقا علیہ السلام نے فرمایا جیسا کہ زہد وتصوف اور بعض دیگر کتب میں یہ روایت مذکور ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِيْ.
ہمارے ہاں فقر اضطراری ہوتا ہے جبکہ آقا علیہ السلام کا فقر اختیاری تھا مگر فقر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی فخر کہا۔ فقر، غنا سے اس لیے عزیز اور محبوب ہوتا ہے کہ غنا میں مال ہے۔ اگر مال حرام کا ہو تو اُس پر عذاب ہو گا، مال حلال کا ہوگا تو اُس پر حساب ہوگا جبکہ فقر میں چونکہ مال اور اس کی محبت پاس ہوتی ہی نہیں، اس لئے نہ عذاب نہ حساب۔ عاشق لوگ جو حقیقتِ ایمان کو پا لیتے ہیں وہ اسی وجہ سے فقر کو غنا پر مقدم رکھتے ہیں۔
3۔ مرض کا صحت سے زیادہ محبوب ہوجانا
حضرت امام باقررضی اللہ عنہ نے ایمان کی حقیقت سمجھاتے ہوئے تیسری علامت یہ بیان فرمائی کہ
وَالْمَرَضُ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الصِّحَّةِ.
’’اگر مرض (بیماری) ہو تو اسے صحت پر محبوب جانے‘‘۔
اس کو سمجھنے کے لئے حضرت ایوب علیہ السلام کی طویل علالت کو ذہن میں رکھیں کہ ان پر ایک طویل زمانہ بیماری کا گزرا۔ ناقابل برداشت درد تھا، لیکن آپe اس حال سے محبت کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کو شفا دی تو کسی نے سیدنا ایوب علیہ السلام سے پوچھا: کہ آپ نے سالہا سال مرض کا زمانہ بھی پایا ہے اور صحت یابی بھی پائی ہے، بتائیںآپ کو اچھا کون سا زمانہ لگا؟ فرمایا:
صحت اللہ کی نعمت ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہوں مگر جو مزہ بیماری کے زمانے میں آتا تھا وہ صحت میں نہیں آتا۔ جو لذت اور جو کیف بیماری کے ایام میں ملتی تھی وہ صحت میں نہیں۔ پوچھا: وہ کیا تھا؟ فرمایا:
جب بیماری بڑی شدید ہو جاتی تھی تو مولیٰ دن میں دو بار صبح و شام پوچھتا تھا کہ ایوب کیا حال ہے؟ جب صبح اس کی یہ رس بھری آواز کانوں میں پڑتی تھی (پیغمبر تھے وحی آتی تھی) ایوب کیا حال ہے؟ تکلیف زیادہ تو نہیں؟ تو اس کا یہ پوچھنا مجھے سارے دن کا غم بھلا دیتا اور سارا دن اسی مستی میں رہتا اور درد کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ شام کو انتظار رہتا تھا کہ اب محبوب دوبارہ پوچھے گا لہذا تمنا ہوتی کہ درد مزید شدت سے طاری ہو، تاکہ محبوب پھر پوچھے اور آواز دے۔ شام کو پھر جب شدید درد اٹھتا تو اللہ تعالیٰ پھر پوچھتا تھا ایوب! کیا حال ہے؟ تکلیف بہت زیادہ تو نہیں ہے؟ پوری رات اسی محبت بھری آواز کی مستی اور محبت میں گزر جاتی اور تکلیف بھول جاتا۔ اب جب سے شفایابی ہے، اس خوبصورت و محبت بھری آواز میں حال کے پوچھے جانے کی نعمت سے محروم ہوگیا ہوں۔ صحت نعمت ہے شکر ادا کرتا ہوں مگر وہ لذت جو اس کے پوچھنے سے آتی تھی، وہ لذت اب نصیب نہیں۔
یہ حقیقتِ ایمان ہے۔ یہ ایک ایسی خریداری ہے کہ اس میں پیسہ لگتا ہی نہیں۔ منہاج القرآن ایسی ہی ایک دوکان ہے جس میں ہم اس عشقِ حقیقی کا سودا بیچتے ہیں مگر قیمت نہیں لیتے۔ یہ عشقِ الٰہی اور عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فروغ کا ایک ایسا بازار ہے جس میں محبت و عشق کا سودا بیچتے ہیں، خریدار آتے ہیں، جتنا چاہیں سودا لے جائیں، یہ اُن خریداروں کے ظرف پر مبنی ہے۔ اس کی بس یہی قیمت ہے کہ اِس عشق کے سوداگر بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سلامتی اور استقامت دے اور ہم سب کو حقیقتِ ایمان کی لذتیں عطا کرے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، جولائی 2017
تبصرہ