روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت اور عالمی قوتوں کی خاموشی

1947ء میں اگست کے مہینے میں پاکستان معرض وجود میں آیا مگر آزادی کا اعلان ہوتے ہی اسلامیان برصغیر جو پاکستان کی طرف ہجرت کررہے تھے ان پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے گئے اور ان مہاجر مسلمانوں کا اس بے دردی سے قتل عام کیا گیا کہ مہاجرین کے راستے میں آنے والی نہروں اور دریاؤں کا پانی سرخی مائل ہو گیا اور جا بجا لاشیں تیرتی نظر آتی تھیں۔ بوڑھوں بچوں، خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا، ان کے گھروں کو جلا دیا گیا، ان کے گلے کاٹے گئے اور کوئی ظلم ایسا نہ تھا جو آزادی کے ان متوالوں پر نہ ڈھایا گیا ہو۔ اگست 2017 ء کا مہینہ جہاں اہل پاکستان کیلئے خوشی کا باعث تھا وہاں روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خبروں کے حوالے سے تکلیف کا باعث بنا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے روہنگیائی مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی خبریں آنے پر ہر آنکھ اشکبار اور غم و غصہ کی حالت میں تھی مگر برما کے ظالم حکمران اور انتہا پسند مذہبی عناصر اس ظلم پر رتی برابر بھی نادم نہ تھے۔ گاؤں کے گاؤں نذر آتش کیے گئے، بچوں ،بوڑھوں، خواتین کو زندہ جلایا گیا، ان کے سر تن سے جدا کیے گئے۔ روہنگیائی مسلمانوں کا قصور کیا تھا، آج کے دن تک کوئی بتانے کیلئے تیار نہیں۔ افسوس اقوام متحدہ سے لے کر او آئی سی تک سب نامی گرامی ادارے اس ظلم پر خاموش اور مصلحتوں کا شکار ہیں۔

پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری واحد قومی سیاسی رہنما تھے جنہوں نے روہنگیا کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کی اور پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان مظالم کی شدیدالفاظ میں مذمت کی اور عالمی ضمیر کا جھنجھوڑا کہ کتوں اور بلیوں کی نسلیں بچانے والے انسانی نسل کشی پر خاموش کیوں ہیں؟ ڈاکٹر طاہرالقادری نے او آئی سی کو بھی جھنجھوڑا کہ وہ جیسا بھی ادارہ ہے کم از کم مذمت کے الفاظ تو ادا کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اقوام متحدہ کو یاد دلایا کہ 2005 ء میں یو این او نے ’’آر ٹو پی ‘‘کے نام سے( Responsibilty to protect ) ایک قانون پاس کیا تھا کہ اگر کوئی حکومت اپنے ملک کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے میں ناکام ہو جائے تو وہ اقوام متحدہ کو مدد کیلئے پکار سکتی ہے۔اس قانون کے تحت اقوام متحدہ کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں والے ملک میں بلا اجازت بھی مداخلت کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے مطالبہ کیا کہ اقوام متحدہ کو روہنگیائی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے مظالم کی روک تھام کیلئے متحرک ہونا چاہیے اور انٹرنیشنل فورسز کو برما میں بھیجا جانا چاہیے۔

روہنگیا کے مسلمان صدیوں سے برما میں رہائش پذیر ہیں اور برمی حکومت انہیں ایک غیر قانونی اقلیت کا سٹیٹس دیتی ہے، برمی مسلمانوں کے خلاف تشدد میں شدت 1982 ء کے بعد آئی۔ 1982 ء میں برماکی فوجی حکومت نے سیٹیزن شپ ایکٹ 1982ء پاس کیا جس میں روہنگیائی مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ 1882 ء میں انگریز کے قبضہ سے قبل اپنی شناخت ظاہر کریں اور ثبوت دیں کہ وہ اس خطے میں موجود تھے۔ یہ ایک مضحکہ خیز قانون ہے جو انٹرنیشنل قوانین اور اخلاقی انسانی اقدار کے برخلاف ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد روہنگیا کے مسلمانوں سے ہر قسم کے انسانی حقوق چھین لیے گئے، انہیں اندرون ملک سفر کی اجازت بھی نہ تھی، انہیں شادی کرنے، تعلیم کے حصول اور اپنی دیگر سیاسی، ثقافتی، سماجی سرگرمیوں کو آزادانہ انجام دینے سے روک دیا گیا۔ اگرچہ یہ مظالم 1947 ء سے جاری ہیں مگر ظلم و بربریت میں شدت 1982 ء کے بعد آئی اور 2012 ء میں اجتماعی قتل و غارت گری کے واقعات نے دنیا کی توجہ حاصل کی۔ یہاں برما کی حکمران جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی کے منافقت پر مبنی کردار کی بھی مذمت کی جاتی ہے کہ انہوں نے خود کو انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر متعارف کروایا، نوبل انعام حاصل کیا اور انسانی حقوق کی جدوجہد میں قید و بند کی سختیاں بھی جھیلیں مگر روہنگیائی مسلمانوں پرہونے والے مظالم پر اس کی مجرمانہ خاموشی پر پوری دنیا کے دانشوروں اور عوامی، سیاسی، سماجی حلقوں میں اشتعال پایا جاتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ظلم وہ ریاستی طاقت کے روکنے کے اقدامات کرتی آنگ سان سوچی نے مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو مسائل کی بنیاد دیکھے بغیر کسی خاص مقصد کیلئے کھڑے نہیں ہونا چاہیے۔ یہ انسانیت دشمن ریمارکس ہیں، انسانی حقوق کی تمام تنظیمیں انہیں اس پر کڑی تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ جمہوری اقدار کی علامت اور لبرل ازم کا استعارہ کہلانے والے آنگ سان سوچی زیادہ دیر تک مکرو و فریب پر مبنی خاموشی کا یہ ڈھونگ نہیں رچا سکیں گی کیونکہ ان کا دامن روہنگیاؤں کی نسل کشی سے داغدار ہے۔ وہ مسلسل چشم پوشی کررہی ہیں، ان کی نظروں کے سامنے بودھا قوم پرست اور فوج منظم طریقے سے مظالم ڈھارہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 ماہ میں 10 ہزار سے زائد روہنگیا افراد کو قتل اور لاکھوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا جا چکا ہے، یہ بات درست ہے کہ روہنگیاؤں کی منظم نسل کشی کا سلسلہ ان کی حکومت سے پہلے شروع ہوا تھا لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ مس سوچی جو عالمی طور پر اپنے ملک کی سب سے جانی پہچانی شخصیت ہیں، قاتلوں اور مقتولوں کو ایک ہی ترازو میں تول رہی ہیں۔ نسل کشی کی پالیسیوں کی حمایت میں سیاسی وزن ڈالتے ہوئے وہ اخلاقی اقدار اور اصولوں سے تہی دامن دکھائی دیتی ہیں، اس طرز عمل کے مظاہرے سے اپنے لاکھوں مداحوں کو مایوس کرنے سے انہوں نے ایک بار پھر اس حقیقت کی تصدیق کر دی ہے کہ پرکشش القابات اور انعامات کی ملمع کاری سے کوئی شخص ہیرو نہیں بن جاتا۔ کیا مس سوچی اور ان کا ملک روہنگیاؤں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور ان کے قتل عام کا سلسلہ روک سکتا ہے ؟ اس انسانی المیے کی دلخراش وسعت اور اس سے ضمیر پر پڑنے والے بوجھ سے مضطرب ہو کر غفلت شعار عالمی برادری اس قتل عام کا نوٹس لینے پر مجبور ہو گئی ہے لیکن فی الحال یہ نوٹس الفاظ تک ہی محدود ہے۔ سوچی کو اس لیے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ ظلم و بربریت روکنا سب سے پہلے بطور حکمران ان کی ذمہ داری ہے، اس کے بعد کسی اور تنظیم یا ادارے کی ذمہ داری بنتی ہے۔

اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کا نوٹس لیا ہے مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ انسانی حقوق کی ان عالمی تنظیموں نے برما کے مظلوم مسلمانوں کو ریلیف دلوانے کے حوالے سے عملاً کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ او آئی سی نے حال ہی میں آستانہ میں ہونے والے اجلاس میں اپنے اعلامیہ میں اس بات کا مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ برما میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے۔ اس کمزور اعلامیہ کا تاحال کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور نہ ہی روہنگیا کے مسلمانوں کے مسائل اور مصائب میں کوئی کمی آئی ہے۔ او آئی سی کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ایک فنڈ قائم کرے اور برما کے ہمسایہ ملک جو بخوشی روہنگیا کے مسلمانوں کو بطور مہاجر اپنے ہاں جگہ دینے پر آمادہ ہیں ان ممالک کی مالی مدد کریں۔ اس فوری ریلیف کے بعد او آئی سی کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ میں یہ سوال اٹھائے کہ برما میں صدیوں سے آباد روہنگیا مسلمانوں کی شہریت اور شناخت کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ سیٹیزن شپ ایکٹ 1982ء کے خاتمے کیلئے آواز اٹھانی چاہیے۔شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا یہ کہنا حقائق پر مبنی ہے کہ یہی وہ واقعات ہیں جن کا دہشتگرد گروپ غلط استعمال کرتے ہوئے اپنے حق کیلئے اور اپنی قتل و غارت گری کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کو روہنگیائی مسلمانوں کے المیہ کو ایک انسانی المیہ سمجھتے ہوئے اس کا فی الفور تدارک کرنا چاہیے ورنہ یہ آگ صرف برما یا ہمسایہ ملکوں تک محدود نہیں رہے گی۔ برما کی حکومت کو عالمی قوانین اور انسانیت کااحترام کرنے کا پابند بنانا چاہیے۔

بہرحال حتمی بات یہ ہے کہ قتل عام کا سلسلہ تاحال جاری ہے، خواتین اور لڑکیوں کی اجتماعی آبرو ریزی سے لے کر تیز دھار آلات سے قتل کرنے، زندہ انسانوں کو تیز بہتے ہوئے دریاؤں میں پھینکنے اور ناقابل تصور تشدد کے دیگر واقعات حالیہ مہینوں میں پیش آئے ہیں۔ اس کی ایک توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ میانمار عالمی قوتوں کو بسیرا بن چکا ہے اور یہاں تزویراتی حامل کے بہت سے عوامل ہیں جو بالا دست قوتوں کو اپنی طرف متوجہ کیے ہوئے ہیں۔ جو بھی حقائق ہوں لیکن انسانیت کی قیمت پر یہ سب کچھ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بات قابل ستائش ہے کہ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن یو کے نے عیدالاضحی کے موقع پر روہنگیائی مسلمانوں کے کیمپوں میں عید گزاری، انہیں عید پر تحائف دئیے، گوشت تقسیم کیا، بلاشبہ یہ عمل قابل ستائش ہے۔ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے والی یہ پہلی فلاحی تنظیم ہے جس نے روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں تک رسائی حاصل کی۔ہمیں منہاج ویلفیئر کے ان ذمہ داروں کی انسانیت دوستی اور اسلامی اخوت کے اس بے مثال جذبہ کے اظہار پر فخر ہے۔

(چیف ایڈیٹر)

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اکتوبر 2017

تبصرہ

ویڈیو

پیش آمدہ مواقع

Ijazat Chains of Authority
Top