میرِ کارواں اِقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں

ڈاکٹر فیض اللہ بغدادی

کسی بھی انسانی معاشرہ کے انتظام و انصرام کے لیے راہنما و حاکم کا وجود ناگزیر ہے۔ بنی نوع انسان کی تاریخ روزِ اوّل سے معاشرہ کے اس بنیادی و ناگزیر عنصر کے وجود کی گواہ ہے۔ اس کرّہ ارضی پر جب حضرت آدم علیہ السلام نے مشیت ایزدی سے سکونت اختیار کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس منصبِ عظیم سے سرفراز فرمایا۔ ان کے بعد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و رُسل نے اپنے اپنے عہد میں بالواسطہ یا بلا واسطہ اس ذمہ داری کو احسن انداز میں نبھایا۔ جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دنیا میں تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ منصبِ ہدایت و حاکمیت آپ کو عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اس منصبِ عظیم کو مثالی انداز میں نبھایا بلکہ ایسے سیاسی، سماجی اور معاشی رہنما اصول عطا فرما دیے جنہیں کوئی بھی حکمران اپنالے تو وہ دنیا کا بہترین حکمران کہلانے کا حق دار ٹھہرے گا۔ شریعت مطہرہ نے صالح و اہل حکمران کے تعین کو واجب قرار دیا، اور اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور سے بغیر کسی قابل ذکر اختلاف کے اجماع پایا جاتا ہے اور اس اجماع کو تقریبا تمام ائمہ و فقہا نے بیان فرمایا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ ابن خلدون بیان کرتے ہیں: بے شک امام کا تقرر واجب ہے، اور شریعت میں اس کا وجوب صحابہ و تابعین کے اجماع سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی اور صحابہ کرام نے اپنے معاملات میں غور و فکر کا حق انہیں تفویض کیا۔ اسی طرح عہدِ صحابہ کے بعد ہر عہد میں یہ معمول جاری رہا اور لوگوں نے کسی بھی عہد کو حکمران کی تقرری سے خالی نہ چھوڑا، اس سے امام کے تقرر کے وجوب پر اجماع متحقق ہو گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان حکمرانوں نے اپنی زندگیوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ منصبِ حاکمیت کے سنہری اصولوں سے آراستہ کیے رکھا وہ اور ان کے محکومین دونوں سرخرو ہوئے اور ان کے معاشرے حقیقی معنیٰ میں امن و سکون کے گہوارے بنے رہے؛ لیکن جوں جوں مسلمان حکمران حاکمیت کے ان نبوی اصولوں سے دور ہوتے گئے توں توں ذلت و مسکنت ان کا اور ان کے محکومین کا مقدر بنتی گئی۔

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ بلاشبہ اپنے وقت کے عظیم مصلح (Great Reformer) تھے، جن کے دل و دماغ میں ملتِ بیضاء کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، اُنہوں نے ملّی سطح پر اُمت کی فکری و عملی آبیاری کے لیے اپنا انمول منظوم و منثور کلام چھوڑا جو رہتی دنیا تک ملت کی راہنمائی کرتا رہے گا۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی نظم و نثر کا بنیادی مقصد ایک ہی ہے اور وہ ہے ملتِ اسلامیہ کی نظری و فکری راہنمائی کے ساتھ ساتھ ملتِ اسلامیہ کے توسط سے دنیا بھر کی اقوام و ملل کے افراد کی زندگیوں کو بہتر بنانا۔

قیادت کیلئے امامت کی اصطلاح

علامہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اسبابِ زوالِ امت میں سے ایک بڑا سبب اس امت کو کسی صالح قیادت کا میسر نہ آنا ہے۔ اس صالح، عادل، باصلاحیت، جہاں دیدہ قیادت کے لیے انہوں نے اپنے کلام میں میرکارواں، مردِ راہ داں، قافلہ سالار، حکمران، لیڈر، امیر اور امام وغیرہا کی اصطلاحات استعمال فرمائیں اور قیادت کے لیے بیش تر امامت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:

ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے

قوم کی حقیقت اور قوموں کی امامت کا تصور اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا:

قوم کیا چیز ہے؟ قوموں کی امامت کیا ہے؟
اس کو کیا سمجھیں یہ بیچارے دو رکعت کے امام

ایک اور مقام پر روشن دماغ اور باصلاحیت قیادت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا:

نگہ بلند سخن دلنواز جاں پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے

تبدیلی کیسے ممکن ہے؟

علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی نظم و نثر میں زوال سے نکلنے کا ایک واضح طریق کار بھی متعین کیا ہے اور وہ ہے فرد کی اصلاح سے ملت کی اصلاح، لیکن علامہ رحمۃ اللہ علیہ اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ عدمِ شعور اور خود احتسابی کے فقدان کے باعث عام افراد کبھی کسی مصلح و مربیّ کے بغیر اپنی اصلاح نہیں کر سکتے۔ اس لیے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر ہے کہ اصلاح اوپر سے نیچے آتی ہے، نیچے سے اوپر نہیں جاتی۔ نظریہ خودی مردانِ کامل پیدا کرتا ہے اور مردانِ کامل دنیا کی اصلاح کرتے ہیں۔ ایسے ہی کسی مردِ کامل کو نظری و عملی اِصلاح پر ابھارتے ہوئے فرماتے ہیں:

اے سوار اشہب دوراں بیا
اے فروغِ دیدہ امکاں بیا

خیز و قانونِ اُخوت ساز دِہ
جام صہبائے محبت باز دِہ

باز در عالم بیار ایام صلح
جنگجویاں را بدہ پیغام صلح

نوع انسانی مزرع و تو حاصلی
کاروانِ زندگی را منزلی

ریخت از جور خزاں برگ و شجر
چوں بہاراں بر ریاض ما گذر

’(اے نائب حق!) اے زمانے کے گھوڑے کے سوار! آ، تو امکان کی آنکھ کا نور ہے (تجھ سے عمل کے نئے نئے امکانات پیدا ہوتے ہیں)۔ اُٹھ اور دوبارہ ایسا قانون اختیار کر، جو اخوت ساز ہو، ایسا جام جس کے اندر محبت کی شراب ہو۔ دنیا میں ایک بار پھر امن و امان قائم کر اور جنگجوؤں کو پھر صلح کا پیغام دے۔ نوعِ انسان کھیتی ہے اور تو اس کا حاصل، تو ہی کاروانِ زندگی کی منزل و مقصود ہے۔ ہمارے شجرِ ملت کے پتے خزاں کے جور و ظلم سے گر چکے ہیں، ہمارے باغ پر موسمِ بہار کی مانند گزر جا۔‘

جب کسی قوم کو اس قوم کے مردانِ کامل یا غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک چند افراد میسر آ جاتے ہیں تو اس قوم کا کارواں منزل کی طرف روانہ ہو جاتا ہے۔

میں جہاں تک سمجھ سکا ہوں اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے عہد کے سیاسی اور بعض مذہبی رہنماؤں سے بہت زیادہ ناامید تھے۔ نظم شمع و شاعر، درحقیقت رہنمائی ملت کی علامت ہے اور ملتِ اسلامیہ کے زوال کا ایک خوفناک عکس اور دردمندانہ پیغام ہے۔ یہ ظاہر کرتی ہے کہ ملت نے باصلاحیت رہنما پیدا کرنے بند کر دئیے ہیں۔ یہ خیال کلامِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ میں آخر تک موجود رہا۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

کوئی کارواں سے ٹوٹا، کوئی بدگماں حرم سے
کہ امیرِ کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی

فلک نے ان کو عطاء کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے

نشانِ راہ دکھاتے تھے جو ستاروں کو
ترس گئے ہیں کسی مردِ راہ داں کے لئے

نظر آئی نہ مجھے قافلہ سالاروں میں
وہ شبانی کہ ہے تمہیدِ کلیم اللٰہی

میرے سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

منزل راہرواں دور بھی، دشوار بھی ہے
کوئی اس قافلے میں قافلہ سالار بھی ہے؟

ایک جگہ تو انہوں نے نام بھی گنوا دئیے ہیں:

نہ مصطفیٰ نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

مصطفی کمال پاشا اور رضا شاہ پہلوی نے اپنی اپنی قوم کے لئے بہت کام کیا لیکن اس کا وہ معیار نہیں تھا جس کے متمنی اقبال رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ یہ حضرات اور ملتِ اسلامیہ پر مسلط ہونے والے دیگر شہنشاہ، رہنما اور علماء ان صلاحیتوں سے عاری تھے جو ملت کو دنیا کی منتخب ملت میں بدل سکتی ہیں۔ جن رہنماؤں سے اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے توقعات وابستہ کیں انہیں ان کی قوم نے یا مغرب کی سازشوں نے کام کرنے کا موقع نہ دیا، نتیجہ یہ کہ ملت ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے کماحقہ استفادہ کرنے سے محروم رہی۔ اس وقت تک کسی اسلامی ملک کا کوئی رہنما اپنے آپ کو ملتِ اسلامیہ کا حقیقی قائد تسلیم نہیں کرا سکا۔ وہ ایک دوسرے کو قریب لانے کی بجائے اختلافات پر زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ملت کو مزید تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں۔

صالح حکمران کی صفات

قرآن کریم میں جو صالح حکمران کی صفات پیش ہوئی ہیں ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:

  1. حکمران عادل اور منصف ہو اور ہوائے نفس کا پجاری نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰـدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰـکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْهَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ ﷲِط اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ ﷲِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِo

’اے داؤد! بے شک ہم نے آپ کو زمین میں (اپنا) نائب بنایا سو تم لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے (یا حکومت) کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ورنہ (یہ پیروی) تمہیں راهِ خدا سے بھٹکا دے گی، بے شک جو لوگ اﷲ کی راہ سے بھٹک جاتے ہیں اُن کے لیے سخت عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ یومِ حساب کو بھول گئے۔‘

ص: 38: 26

  1. حکمران ہاتھ اور دل کا صاف ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی زبان سے فرمایا:

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰی خَزَآئِنِ الْاَرْضِج اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌo

’یوسف ( علیہ السلام ) نے فرمایا: (اگر تم نے واقعی مجھ سے کوئی خاص کام لینا ہے تو) مجھے سرزمینِ (مصر) کے خزانوں پر (وزیر اور امین) مقرر کر دو، بے شک میں (ان کی) خوب حفاظت کرنے والا (اور اقتصادی امور کا) خوب جاننے والا ہوں۔‘

یوسف، 12: 55

  1. حکمران دین و دنیا کے معاملہ میں رشوت قبول کرنے والا نہ ہو، اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا جب ملکہ بلقیس نے ہدیہ (رشوت) کے ساتھ انہیں آزمانے کا ارادہ کیا:

قَالَ اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ فَمَا اٰتٰـنِیَ ﷲُ خَیْرٌ مِّمَّآ اٰتٰـکُمْج بَلْ اَنْتُمْ بِهَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَo

’(تو سلیمان علیہ السلام نے اس سے) فرمایا: کیا تم لوگ مال و دولت سے میری مدد کرنا چاہتے ہو۔ سو جو کچھ اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے اس (دولت) سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں عطا کی ہے بلکہ تم ہی ہو جو اپنے تحفہ سے فرحاں (اور) نازاں ہو۔‘

النمل، 27: 36

  1. صالح حکمران دنیوی اسباب کو اختیار کرتا ہے لیکن توکل صرف اللہ کی ذات پر کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ذوالقرنین کے بارے میں فرمایا: جب کمزور و نادار لوگوں نے ان سے ایسا بند باندھنے کا مطالبہ کیا جو انہیں فساد انگیزی کرنے والوں سے محفوظ رکھے:

قَالَ مَا مَکَّنِّیْ فِیْهِ رَبِّیْ خَیْرٌ فَاَعِیْنُوْنِیْ بِقُوَّةٍ اَجْعَلْ بَیْنَکُمْ وَبَیْنََهُمْ رَدْمًا.

’(ذوالقرنین نے) کہا: مجھے میرے رب نے اس بارے میں جو اختیار دیا ہے (وہ) بہتر ہے، تم اپنے زورِ بازو (یعنی محنت و مشقت) سے میری مدد کرو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔‘

(الکهف، 18: 95)

  1. صالح حکمران فضل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے وعدہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ حضرت ذوالقرنین جب بند باندھ چکے تو فرمایا:

هٰذَا رَحْمَةٌ مِّنْ رَّبِّیْج فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّیْ جَعَلَهٗ دَکَّآءَج وَکَانَ وَعْدُ رَبِّیْ حَقًّاo

’یہ میرے رب کی جانب سے رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدۂ (قیامت قریب) آئے گا تو وہ اس دیوار کو (گرا کر) ہموار کردے گا (دیوار ریزہ ریزہ ہوجائے گی)، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔‘

 (الکهف، 18: 98)

  1. صالح حکمران صادق و امین ہوتا ہے اور وہ خیانت اور دھوکہ دہی نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرمایا:

وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِیَانَةً فَانْبِذْ اِلَیْهِمْ عَلٰی سَوَآءٍط اِنَّ ﷲَ لَا یُحِبُّ الْخَآئِنِیْنَo

’اور اگر آپ کو کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو ان کا عہد ان کی طرف برابری کی بنیاد پر پھینک دیں۔ بے شک اللہ دغابازوں کو پسند نہیں کرتا۔‘

الأنفال، 8: 58

  1. صالح حکمران ایسا منصف ہوتا ہے جو لوگوں سے نہیں ڈرتا اور جسے اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر بھی نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جب ذو القرنین کو تمکنت و حکومت عطا فرمائی اور سرکش لوگوں پر غلبہ عطا کیا تو انہیں اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو انہیں قتل کر دیں اور چاہیں تو انہیں جیل میں ڈال دیں، تو ذوالقرنین نے فرمایا:

وَاَمَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَلَهٗ جَزَآءَ نِالْحُسْنٰیج وَسَنَقُوْلُ لَهٗ مِنْ اَمْرِنَا یُسْرًاo

’اور جو شخص ایمان لے آئے گا اور نیک عمل کرے گا تو اس کے لیے بہتر جزا ہے اور ہم (بھی) اس کے لیے اپنے احکام میں آسان بات کہیں گے۔‘

 (الکهف، 18: 88)

  1. صالح حکمران امانت اس کے اہل کو ادا کرتا ہے اور لوگوں کے درمیان عدل سے حکمرانی کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

اِنَّ ﷲَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰـنٰـتِ اِلٰٓی اَهْلِهَا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ ﷲَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِهٖط اِنَّ اﷲَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًاo

’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں، اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو، بے شک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘

 (النساء، 4: 58)

یہ ہیں قرآن کی بیان کردہ ایک صالح حکمران کی صفات، اور یہی وہ صفات ہیں جو علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ امتِ مسلمہ کے حکمرانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن افسوس صد افسوس علامہ کے اِس خواب کی تعبیر ابھی تک ادھوری ہے اور امتِ مسلمہ آج بھی اس میرِ کارواں کی متلاشی ہے جو قرونِ اولیٰ میں ان کا سرمایہ افتخار تھا اور جس کا خواب انہیں علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے دکھایا تھا۔

افسوس! ہمارے حکمران۔ ۔ ۔ ۔

آج ہم دوسرے اسلامی ملکوں کی بات نہیں کرتے خود مملکتِ خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو ہی دیکھ لیجئے۔ کیا ان میں ایک صالح حکمران جس کی صفات قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور جن کا نقشہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اشعار میں کھینچا ہے ،کیا ہمارے حکمران ان میں سے کسی ایک صفت پر بھی پورے اترتے ہیں؟ یہ پاکستانی قوم کا بہت بڑا المیہ ہے، جو جب تک حل نہیں ہوتا، ترقی اس قوم کا مقدر نہیں بن سکے گی اور جب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو کوئی دنیاوی طاقت اس قوم کی ترقی میں رکاوٹ نہیں بن سکے گی۔

اقبال رحمۃ اللہ علیہ ملت کے افراد کو خوابِ غفلت سے بیدار کرنے یا ذاتی اغراض سے بلند ہو کر اجتماعی بھلائی کے لیے کام کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ رہنماؤں اور مقتدر طبقات کی توجہ خود احتسابی اور خود انحصاری کی طرف دلاتے ہیں، جس کے بغیر اصلاح ممکن ہی نہیں ہے۔ خوش فہمیوں میں مبتلا قومیں اپنی کمزوریوں کو دور نہیں کر سکتیں۔ صدر ایوب خان کو بعض مشیروں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ ذرائع ابلاغ اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کے ذریعے ملک کے لوگوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ ہمارے ہاں سب ٹھیک ہے۔ تعمیر و ترقی کا کام بڑی تیز رفتاری سے جاری ہے۔ لوگ بے حد خوش حال ہیں۔ ان کے مسائل حل ہو چکے ہیں۔

چنانچہ ملک کی خرابیوں کا ذکر ختم کر دیا گیا اور ترقی ترقی کی گردان شروع ہوگئی لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ جب ایوب خان رخصت ہوا تو سقوطِ ڈھاکہ کے لیے زمین ہموار ہو گئی تھی اور ادھر لوگ ذرائع ابلاغ کے اس پرچار میں اتنے محو تھے کہ حقیقت سے بالکل بے خبر ہو کر رہ گئے تھے۔ اسی قسم کی رجائیت کسی قوم یا ملک کے لئے مفید نہیں ہو سکتی۔

ہمیں آنکھیں کھول کر ارد گرد کے حالات کا مشاہدہ کرنا اور فکر و تدبر سے مسائل کا حل دریافت کرنا ہے اور حل دریافت کرنے کے بعد جہد مسلسل اور عمل پیہم سے منزل کی طرف بڑھنا ہے، ہماری قوم میں بڑی صلاحیتیں مضمر ہیں اور یقیناً اسی قوم کے افراد کے لئے اقبال نے کہا تھا:

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

ہماری ترقی کے راستے میں کوئی رکاوٹ ہے تو وہ صالح قیادت کا فقدان ہے، جس دن یہ خرابی دور ہو گئی یہ قوم دنیا کی منتخب ترین قوم بن جائے گی، ان شاء اللہ۔
آج نہ صرف اہل پاکستان کو بلکہ اُمت مسلمہ کو شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں اقبال کے خوابوں کی تعبیر اور ایک ایسا میر کارواں میسر ہے جو دین و دنیا کا وسیع علم رکھتا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے ناقابل یقین سیاسی، مذہبی اور معاشی بصیرت عطا فرمائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی بروقت قدر کی جائے، دنیا کے بدلتے ہوئے اور دگرگوں حالات میں شیخ الاسلام سے بڑھ کر کوئی قائد نظر نہیں آتا۔ آج اگر اس قیادت کی ناقدری کی گئی تو ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے جرم کے مرتکب ہوں گے جسے تاریخ معاف نہیں کرے گی۔ ضرورت ہے کہ شیخ الاسلام کے ویژن سے علاقائی اور عالمی سطح پر استفادہ کیا جائے، مگر اس سیاسی ناخواندگی کا کیا کریں کہ اہل پاکستان رہزنوں اور قزاقوں کے چنگل سے نکلنے کو تیار ہی نہیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ اہل پاکستان کو ملکی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر میں سیاسی شعور سے نوازے۔

ماخوذ از ماہنامہ منہاج القرآن، اپریل 2018

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top