اسلامی معاشی نظام میں اعتدال کی اہمیت تحریر: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (ماہر معاشیات)

دنیا کے بدلتے ہوئے معاشی منظرنامے میں جہاں کبھی اسراف و فضول خرچی نے تہذیبوں کو کھوکھلا کیا اور کہیں کنجوسی و حرص نے معاشرتی توازن کو برباد کر دیا، وہاں اسلام ایک ایسا جامع اور متوازن نظامِ معیشت پیش کرتا ہے جو فرد اور معاشرے دونوں کے لیے نجات کا راستہ فراہم کرتا ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو نہ اسراف کی اجازت دی ہے اور نہ بخل کی، بلکہ ایک ایسا معتدل راستہ اپنانے کی تلقین کی ہے جس میں ضرورتیں بھی پوری ہوں اور عدل و انصاف بھی قائم رہے۔ یہی اصول معاشی ترقی اور سماجی استحکام کی اصل ضمانت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے معیشت کے ہر پہلو میں میانہ روی اور اعتدال کو بنیادی رہنما اصول قرار دیا ہے۔ فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر ریاست کے اجتماعی معاملات تک، یہ اصول ایک ایسی کڑی ہے جو عدل، توازن اور خوشحالی کو باہم جوڑ دیتا ہے۔ جب قرآن و سنت کی ان روشن تعلیمات کو سامنے رکھا جائے تو یہ حقیقت مزید واضح ہو جاتی ہے کہ معاشی استحکام کا راز دولت کے انبار میں نہیں بلکہ اس کے درست اور متوازن استعمال میں ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کی پائیدار ترقی اور معاشرتی استحکام صرف وسائل کی کثرت سے نہیں بلکہ ان کے درست اور متوازن استعمال سے ممکن بنتا ہے۔ دولت کا ارتکاز اگر بے اعتدالی کا شکار ہو جائے تو خوشحالی کے بجائے محرومی بڑھتی ہے اور ترقی کے بجائے زوال مقدر بنتا ہے۔ اسلام نے اسی نکتے کو واضح کرتے ہوئے عدل اور توازن کی راہ دکھائی ہے تاکہ دولت کا بہاؤ صرف چند ہاتھوں تک محدود نہ رہے بلکہ معاشرے کے ہر طبقے تک پہنچ سکے۔اسلامی تعلیمات میں معاشی اعتدال کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

"اور نہ تم اپنا ہاتھ اپنی گردن سے باندھ لو (کنجوس بن کر)، اور نہ اسے بالکل کھول دو (اسراف کرتے ہوئے)، پھر تم بیٹھے کے بیٹھے ملامت زدہ اور بے سہارا رہ جاؤ گے" (بنی اسرائیل: 29)

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا گیا: "اور کھاؤ اور پیو مگر اسراف نہ کرو، بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا" (الاعراف: 31)

رسول اکرم ﷺ نے بھی اپنی عملی زندگی سے یہ درس دیا کہ اعتدال ہی کامیابی کا زینہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "بیشک میانہ روی اختیار کرنا ایمان کا حصہ ہے"۔

اسی طرح رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: "اعتدال نصف معیشت ہے" (الطبرانی)حضور اکرم ﷺکا یہ فرمان ہمیں باور کراتا ہے کہ کفایت شعاری اور میانہ روی ہی معیشت کی اصل روح ہے۔ یہ اصول انسان کو حرص، لالچ اور اسراف کی تباہ کاریوں سے بچاتا ہے اور اسے ایک متوازن اور بابرکت زندگی کی طرف رہنمائی دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے معیشت کے ہر پہلو میں میانہ روی اور اعتدال کو بنیادی رہنما اصول قرار دیا ہے۔ فرد کی ذاتی زندگی سے لے کر ریاست کے اجتماعی معاملات تک، یہ اصول ایک ایسی کڑی ہے جو عدل، توازن اور خوشحالی کو باہم جوڑ دیتا ہے۔

تاریخِ اسلام کی روشن مثالوں میں سے ایک خلافتِ راشدہ کا عہد ہے، جہاں عدل، احتیاط اور کفایت شعاری نے ایک مثالی نظام قائم کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا دور اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے ذاتی آسائش اور فضول خرچی سے اجتناب کرتے ہوئے ریاستی وسائل کو عوام کی فلاح پر صرف کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بیت المال کی خوشحالی اس قدر بڑھی کہ لینے والا کوئی نہ رہا۔ یہ وہ معاشی اعتدال تھا جس نے نہ صرف غربت کا خاتمہ کیا بلکہ اسلامی معیشت کو دنیا کے سامنے ایک عملی نمونہ بنا دیا۔

اسلام تجارت اور معیشت کو عبادت کے درجے تک لے جاتا ہے جب اس میں دیانت، انصاف، توازن اور اعتدال شامل ہوں۔ اگر معیشت سے اخلاقیات نکال دی جائیں تو یہ ظلم اور استحصال کی شکل اختیار کر لیتی ہے، لیکن اگر اس میں اسلامی اصول شامل کر دیے جائیں تو یہ وسیلۂ خیر بن جاتی ہے۔

پاکستان میں معاشی اعتدال کے لیے چند عملی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ وسائل کا استعمال قومی ترجیحات کے مطابق کیا جائے، فضول خرچی اور دکھاوے کے کلچر کو ختم کیا جائے اور اخراجات میں سادگی کو فروغ دیا جائے۔ دوسری ضرورت یہ ہے کہ تعلیم و تحقیق پر سرمایہ کاری کی جائے تاکہ معیشت کو مضبوط بنیادیں مل سکیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ ملکی پیداوار کو بڑھایا جائے، زراعت اور صنعت کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اور نوجوان نسل کو ہنر مند بنا کر معیشت کا حقیقی سرمایہ بنایا جائے۔ اسلام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جب اخلاص، دیانت اور اعتدال کے ساتھ وسائل بروئے کار لائے جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی برکت نازل فرماتا ہے۔ یہ برکت کبھی اعداد و شمار تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے معاشرے کے چہروں پر خوشی اور سکون کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وہ منزل ہے جس کی طرف ہمیں بڑھنا ہے، یہی وہ سبق ہے جو قرآن و سنت نے ہمیں دیا ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں معاشی غلامی سے نکال کر حقیقی خود انحصاری کی منزل تک لے جا سکتا ہے۔

عصرِ حاضر میں جب دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات اور سوشلسٹ نظریات کی ناکامیوں کا مشاہدہ کر رہی ہے، ایسے میں اسلامی معیشت کی افادیت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ مختلف مسلم ممالک نے اس ضمن میں اپنے اپنے تجربات پیش کیے ہیں۔ مثلاً ملائیشیا نے اسلامی بینکاری کے ذریعے سرمایہ کاری کو فروغ دیتے ہوئے معاشی اعتدال قائم کیا ہے۔ انڈونیشیا نے چھوٹے کاروباری طبقے کی فلاح کے پروگراموں سے غربت میں کمی کی، جبکہ پاکستان میں زرعی اصلاحات اور سود سے پاک مالیاتی اداروں کی جانب پیش رفت نے اس اصول کی عملی تصویر پیش کی ہے۔ یہ تجربات ثابت کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات محض نظریاتی دعوے نہیں بلکہ ایک عملی نظام ہیں جو معیشت کو انصاف، توازن اور پائیداری عطا کرتے ہیں۔دنیا کے مختلف خطوں میں اسلامی مالیاتی ماڈلز کے عملی تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کا دیا ہوا اصولِ معاشی اعتدال انسانی فلاح و بہبود کے لیے ناگزیر ہے۔ جب معیشت کو اعتدال اور انصاف کے ساتھ منظم کیا جائے تو نہ صرف غربت میں کمی آتی ہے بلکہ ترقی کا سفر بھی پائیدار بنتا ہے۔ یہ ماڈلز اس حقیقت کو اجاگر کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل درآمد سے معیشت میں توازن اور معاشرت میں استحکام دونوں بیک وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ گویا اسلام کا پیغام صرف نظریہ نہیں بلکہ ایک قابلِ عمل خاکہ ہے جو آج کے پیچیدہ معاشی مسائل کا بھی حل پیش کرتا ہے۔

حوالہ جات: اسلامی اخلاقیات تجارت از پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (ماہر معاشیات)

Islamic Microfinance, Landscape.Models and Future Prospects

The Importance of Moderation in the Islamic Economic System By Dr Hussain Qadri

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top