سیدنا امام حسین علیہ السلام دینِ مصطفی کے پیکر ہیں: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت تا قیامت روشن رہے گی، اُسی طرح امام حسینؑ کی شہادت بھی قیامت تک حق و صداقت کی علامت بنی رہے گی: شیخ الاسلام کا خطاب
سیدنا امام حسین علیہ السلام دینِ مصطفیٰ ﷺ کا پیکر اور صبر و استقامت کی وہ تصویر ہیں، جنہوں نے اپنے کردار، قربانی اور شہادت کے ذریعے نبی اکرم ﷺ کی سنت اور دین کی عظمت کو دنیا کے سامنے واضح کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرت تا قیامت روشن رہے گی، اُسی طرح امام حسینؑ کی شہادت بھی قیامت تک حق و صداقت کی علامت بنی رہے گی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ: سیدنا امام حسین علیہ السلام دینِ مصطفی ﷺ کا پیکر ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے سیدنا امام حسین علیہ السلام کو اپنے دین کا مظہر قرار دیا اور فرمایا: حسینٌ منی وأنا من الحسین: حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حسینؑ میری ہی عطا سے ہیں، وہ میرے نور کا حصہ ہیں، اور میں حسینؑ کے ذریعے پہچانا جاؤں گا۔ یعنی امام حسینؑ اپنی ذات اور کردار کے ذریعے دنیا کو دکھائیں گے کہ حضور اکرم ﷺ کی ذات کیا ہے، آپ کا دین کیا ہے، اور آپ کی سنت کی حقیقت کیا ہے۔ سیدنا امام حسینؑ ایسی عظیم قربانی دیں گے، ایسی بے مثال شہادت پیش کریں گے، اور ایسے بلند کردار کا مظاہرہ کریں گے کہ کائنات کو اُس دن پتا چلے گا کہ رسولِ خدا ﷺ کی سنت اور دین کی عظمت کیا ہے۔
سیدنا امام حسین علیہ السلام صبر کا پیکر
سیدنا امام حسین علیہ السلام صبر و استقامت کی ایسی عظیم مثال ہیں جو رہتی دنیا تک انسانیت کو حوصلہ عطا کرتی رہے گی۔ میدانِ کربلا میں ظلم، پیاس اور شہادت کے لمحات میں بھی آپ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ آپ کا ہر قدم حق کے لیے تھا اور ہر لمحہ صبر و رضا کا مظہر۔ سیدنا امام حسینؑ نے دکھایا کہ سچائی کی راہ میں آنے والی تکالیف کو برداشت کرنا ہی اصل شجاعت اور ایمان کا تقاضا ہے۔ آپ کا صبر آج بھی دنیا بھر کے مظلوموں کے لیے روشنی کا مینار ہے۔
صبرِ سیدنا امام حسینؑ حقیقت میں صبرِ مصطفی ﷺ ہے
میدان کربلا میں سیدنا امام حسینؑ سے جس صبر کا ظہور ہوا وہ در حقیقت صبرِ مصطفی ﷺ تھا جو کردارِ حسین علیہ السلام سے ظاہر ہوا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے کہا کہ: میدانِ کربلا میں جو شہادت امام حسین علیہ السلام کی ہوئی وہ حقیقت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی شہادت کی عکاسی تھی۔ یہی وجہ ہے جیسے قیامت تک حضور نبی اکرم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کا بول بالا رہے گا اِسی طرح سیدنا امام حسینؑ کی شہادت کا بول بالا رہے گا۔
محبتِ حسنین کریمین علیہما السلام رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کی علامت ہے
ایک مرتبہ سیدنا امام حسین علیہ السلام کو حضور نبی اکرم ﷺ نے چوما اور فرمایا: حسینؑ مجھ سے ہے اور میں حسینؑ سے ہوں۔ اللہ اُسی سے محبت کرے گا جو حسینؑ سے محبت کرے گا۔ (ترمذی، السنن، ابن حبان، الصحیح)
پھر آقا ﷺ نے فرمایا: جس نے حسن و حسین علیہما السلام سے محبت کی اُس نے میرے ساتھ محبت کی، اور جس نے اِن دونوں کے ساتھ بغض رکھا، اُس نے میرے ساتھ بغض و عناد رکھا۔ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کو نفسِ انسانی کے قتل کے تناظر میں نہیں دیکھا جائے گا بلکہ شہادتِ امام حسین علیہ السلام کو اُس تناظر میں دیکھا جائے گا جو آقا ﷺ نے فرمایا ہے۔ یعنی جو حسین علیہ السلام سے بغض رکھتا ہے وہ حضور نبی اکرم ﷺ سے بغض رکھتا ہے۔ جو حسین علیہ السلام کو اذیت دیتا ہے وہ در حقیقت رسول اللہ ﷺ کو اذیت دیتا ہے۔
حاصلِ کلام
سیدنا امام حسین علیہ السلام دینِ مصطفیٰ ﷺ کا عملی مظہر، صبر و استقامت کا پیکر، اور حق و صداقت کی وہ بلند علامت ہیں، جنہوں نے اپنی قربانی اور کردار سے رسول اللہ ﷺ کی سنت اور دین کو زندہ و تابندہ کر دیا۔ میدانِ کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی عظیم شہادت نہ صرف صبرِ مصطفی ﷺ کی جھلک تھی بلکہ اس نے قیامت تک دین کی حرمت کو اجاگر کیا۔ سیدنا امام حسین علیہ السلام کی شہادت دراصل سیرتِ مصطفی ﷺ کا تسلسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا حسینؑ سے محبت درحقیقت نبی کریم ﷺ سے محبت ہے، اور ان سے بغض و عناد رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کے مترادف ہے۔
بلاگ: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، لائیو اَپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)
تبصرہ