یتیم کی کفالت جنت میں جانے کا سبب ہے: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
عالمی اَعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات کرنے والے مسلمان ہیں: صدر منہاج القرآن
امتِ مسلمہ کو اللہ رب العزت نے ایثار، قربانی اور ہمدردی جیسے عظیم اوصاف سے نوازا ہے، جو نہ صرف انفرادی نیکی کا ذریعہ ہیں بلکہ اجتماعی فلاح اور اُخروی نجات کی ضمانت بھی۔ تعلیماتِ اسلام ہمیں یہ واضح کرتی ہیں کہ اسلام محض عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ اَخلاقی تطہیر، دل کی صفائی اور معاشرتی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ جو دل بغض و حسد سے پاک ہو، جو ہاتھ ناداروں کے لیے کھلے ہوں، اور جن گھروں میں یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جاتا ہو، وہی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے محبوب اور جنت کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
منہاج القرآن انٹرنیشنل کے زیرِ انتظام چلنے والے ادارے آغوش آرفن کیئر میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا ہے کہ اللہ رب العزت نے دنیا میں بہت سی قومیں پیدا فرمائی ہیں، لیکن مسلمانوں کو خاص طور پر اس طرح پیدا فرمایا کہ اُن کے دلوں میں اِیثار اور قربانی کا ایسا جذبہ رکھ دیا جس کی مثال دنیا کی کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی۔ عالمی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ خیرات (چیریٹی/ڈونیشن) کرنے والے مسلمان ہیں۔ یعنی یہ جذبۂ ایثار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے اندر بدرجہ اَتم رکھا ہے۔ مغربی ممالک میں اگرچہ یتیموں اور غریبوں کی کفالت کے لیے حکومتیں خود ذمہ دار ہوتی ہیں، لیکن مسلم دنیا کے 55 ممالک میں ایسا کوئی حکومتی نظام موجود نہیں۔ اس کے باوجود ان ممالک میں ناداروں، یتیموں اور کمزوروں کی کفالت کا کام رکنے نہیں پاتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو تاجدارِ کائنات ﷺ کے صدقے سے ایسا دل عطا فرمایا ہے جو ایثار، ہمدردی اور قربانی سے لبریز ہے، اور یہی جذبہ امت کو آج بھی کفالت کا فریضہ انجام دینے کے قابل بناتا ہے۔
امتِ مسلمہ کا جنت میں داخلہ ایثار اور قربانی کی وجہ سے ہوگا:
امتِ مسلمہ کا جنت میں داخلہ صرف ظاہری عبادات کی کثرت سے نہیں بلکہ ایثار، قربانی، اور دلوں کی پاکیزگی سے مشروط ہے۔ جب ایک مسلمان اپنی خواہشات کو پسِ پشت ڈال کر کسی دوسرے بھائی کی ضرورت کو ترجیح دیتا ہے، جب وہ بغض، حسد اور کینہ کو دل سے نکال کر محبت، خیر خواہی اور ہمدردی کو جگہ دیتا ہے، تو یہی اخلاقی اوصاف اسے جنت کا مستحق بناتے ہیں۔ ایثار وہ وصف ہے جو فرد کو اپنی ذات سے بلند کر کے امت کا حقیقی خادم بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ دل پسند ہے جو رحم، محبت اور درگزر سے لبریز ہو، کیونکہ یہی صفات قیامت کے دن نجات کا ذریعہ بنیں گی۔
ڈاکٹر حسین محی الدین نے تعلیماتِ اسلامی کی روشنی میں جذبۂ ایثار سے متعلق مزید کہا کہ: امام حسن بن علیی علیہ السلام روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إنَّ بُدَلاَءَ أُمَّتِي لَا يدْخلُونَ الْجنَّة بِكَثْرَة صَوْم وَلَا صَلَاة وَلَكِن دَخَلُوْهَا بِرَحْمَةِ اللهِ وَسَلَامَةِ الصُّدُوْرِ وَسَخَاوَةِ الْأَنْفس وَالرَّحْمَة وَلِجَمِيعِ الْمُسلمين.
(الحکیم الترمذی، نوادر الأصول، ج1، ص 263)
میری امت کے لوگ جنت میں نمازوں کی کثرت کی وجہ سے نہیں جائیں گے، بلکہ اس لیے جنت میں جائیں گے کہ اِن کے دل مسلمانوں کے بغض سے پاک و صاف ہوں گے اور وہ دوسروں کے ساتھ سخاوت کرتے ہوں گے، اور مسلمانوں کے ساتھ رحم کرتے ہوں گے۔
یتیم کی کفالت اور تعلیماتِ اسلام
تعلیماتِ اسلام میں یتیم کی کفالت کو نہایت بلند مقام حاصل ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کو جنت میں قربت کا ذریعہ قرار دیا۔ یتیم کی پرورش اور نگہداشت معاشرتی فلاح اور رضائے الٰہی کا بہترین راستہ ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے تعلیماتِ اسلام میں خصوصیت کے ساتھ یتیم کی کفالت کو اہمیت دی۔ رسول اللہ ﷺ نے یتیم کی کفالت اور اُس کی تعلیم و تربیت کو بہت اہمیت عطا فرمائی۔ حضور ﷺ نے یتیم کی کفالت و پرورش کرنے والے کے لیے یہ انعام عطا فرمایا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے قریب ہو جاتا ہے اور وہ آخرت میں بھی میری ایسے قریب ہو جاتا ہے جیسے یہ دو انگلیاں ہیں۔
یتیم کی کفالت کرنے والے کے لیے حضور ﷺ کی قربت کا حصول:
اسلام نے یتیموں کی کفالت کو ایسا عظیم عمل قرار دیا ہے جس کے بدلے جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ یتیم کی نگہداشت محض سماجی خدمت نہیں بلکہ ایک روحانی سعادت ہے، جو دلوں کو نرم کرتی، نفس کو پاک کرتی اور انسان کو رب کے قریب کر دیتی ہے۔ جو شخص یتیم کا سہارا بنتا ہے، وہ دراصل اللہ کے بندوں کی ذمہ داری اٹھاتا ہے، اور یہی طرزِ عمل اسے جنت کے اعلیٰ درجات تک لے جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت سہلؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ هَكَذَا وَقَالَ بِإِصْبَعَيْهِ السَّبَّابَةِ وَالْوُسْطَى.
(بخاری، الصحیح، ج5، ص 2032، رقم: 4998)
میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ساتھ ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
گھر کی عظمت یا ذلّت، یتیم کے برتاؤ سے طے ہوتی ہے:
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے یتیم کی کفالت اور پرورش کے متعلق بیان کرتے ہوئے کہا کہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
خَيْرُ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُحْسَنُ إِلَيْهِ، وَشَرُّ بَيْتٍ فِي الْمُسْلِمِينَ بَيْتٌ فِيهِ يَتِيمٌ يُسَاءُ إِلَيْهِ، أَنَا وَكَافِلُ الْيَتِيمِ فِي الْجَنَّةِ كَهَاتَيْنِ، يُشِيرُ بِإِصْبَعَيْهِ
(بخاری، الأدب المفرد، ج1، ص 61، رقم: 137)
مسلمانوں کا وہ گھر سب سے اچھا ہے جس میں کوئی یتیم ہو جس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کا وہ گھر سب سے بُرا ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ بُرا سلوک روا رکھا گیا ہو۔ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں کہا کہ بعض اوقات چھوٹے بچے اور بچیاں لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں، لیکن افسوس کہ لوگ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔ اگر کسی گھر میں ایسا ظلم ہو رہا ہو، تو ممکن ہے کہ وہ گھر رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق پوری دنیا کا سب سے بُرا گھر بن چکا ہو۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ یتیموں اور بچوں کے ساتھ نرمی، محبت اور عزت سے پیش آئیں، تاکہ ہمارا گھر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں بہترین گھر بن سکے۔
حاصلِ کلام:
امتِ مسلمہ وہ خوش نصیب جماعت ہے جسے اللہ رب العزت نے نہ صرف ایمان کے نور سے منور فرمایا، بلکہ اس کے دلوں میں ایثار، قربانی اور ہمدردی جیسے اوصافِ حمیدہ کا چراغ بھی روشن کیا۔ ان صفاتِ باکمال نے مسلمانوں کو محض عبادت گزار نہیں، بلکہ ایک دوسرے کا سچا خیر خواہ، معاشرتی فلاح کا علمبردار اور ربِ کریم کا مقبول بندہ بنا دیا ہے۔ یہی اوصاف وہ جوہر ہیں جو ایک مسلمان کو ظاہری عبادات سے بڑھ کر جنت کا مستحق بناتے ہیں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کا خطاب دراصل اُمت کے باطن میں پوشیدہ اُس جمالیاتی روح کو بیدار کرنے کی ایک کوشش ہے جو ایثار و قربانی کے جوہر سے مزین ہے۔ اُن کے مطابق مسلمان صرف عقائد یا رسوم کا اَمین نہیں، بلکہ وہ مخلوقِ خدا کی خدمت، ناداروں کی کفالت اور معاشرتی ذمہ داریوں کا شعور رکھنے والا ایک زندہ ضمیر انسان بھی ہے۔ مسلمانوں کا جذبۂ عطا، انفرادی و اجتماعی خیر کا استعارہ بن چکا ہے، جس کی گونج عالمی سطح پر محسوس کی جاتی ہے۔
بلاگ: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، سوشل میڈیا، لائیو اَپڈیٹ سیل)
تبصرہ