اولیاء اللہ کے مزارات کی حاضری اُن کی ظاہری صحبت کی حاضری سے کم نہیں ہوتی: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
اولیاء اللہ کے فیوضات اور اُن کی توجہات قائم اور دائم ہیں: شیخ الاسلام کا خطاب
اولیاء اللہ کے مزارات کی حاضری دراصل روحانی فیض و برکت حاصل کرنے کا ایک عظیم ذریعہ ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ جیسے اُن کی زندگی میں اُن کی صحبت انسان کے ایمان، کردار اور اعمال پر مثبت اثر ڈالتی تھی، ویسے ہی ان کے مزارات پر حاضری بھی دل کو سکون، روح کو تازگی اور ایمان کو جِلا عطا کرتی ہے۔ اہلِ دل اور صوفیاء نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اولیاء کی بارگاہ میں حاضری، اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے اور اپنی روحانی تربیت کے لیے ایک وسیلہ ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اُن کے مزارات کی زیارت، اُن کی ظاہری صحبت کی طرح ہی اثر انگیز اور بابرکت ہے۔
اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری کی شرائط
شیخ الإسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو القاسم گرگانیؒ سے پوچھا: کسی شیخ کی صحبت سے فائدہ حاصل کرنے کی کیا شرط ہے؟ انہوں نے فرمایا: شرط صرف یہ ہے کہ جب کسی شیخ کی صحبت میں جاؤ تو اپنی خواہشات اور آرزوؤں کو قربان کر دو۔ جو وہ چاہیں وہی کرو، اپنی خواہش کو چھوڑ دو اور فنا کر دو۔ پھر دیکھو کہ اُن کی صحبت اور اُن کی نظر کا فیض کس طرح رنگ دکھاتا ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اکثر لوگ اولیاء اللہ کے مزارات پر اپنی ذاتی آرزوئیں اور اپنے بنائے ہوئے معیار لے کر جاتے ہیں اور انہی کی بنیاد پر مقامِ ولایت کو پرکھنے لگتے ہیں۔
اولیاء اللہ کی صحبت سے فیض یاب اور محروم ہونے والے لوگ
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا کہ جو لوگ مقامِ ولایت کو پرکھتے ہیں یعنی: میں فلاں کو اتنا بڑا ولی سمجھتا تھا، میں اُس کی بارگاہ میں جاتا رہا اور مجھے وہاں سے کوئی بھی چیز میسر نہ آ سکی، ایسا سوچنے والا شخص عمر بھر کچھ نہیں پا سکتا۔
جو شخص ان تمام خواہشات سے مستغنی ہوکر، اور اپنی خواہش و آرزو کے بت کو پاش پاش کر کے کسی ولی اللہ کی بارگاہ میں جاتا ہے اور محض اُن کے قدموں کی برکات کے حصول کے لیے جاتا ہے، صرف اُن کی صحبت کے لیے جاتا ہے، محض ان سے دردِ دل کے حصول کے لیے جاتا ہے، تو اسے پھر دنیا کی عزتیں بھی نصیب ہوتی ہیں، آخرت کی عزتیں بھی نصیب ہوتی ہیں اور سب کچھ نصیب ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام نے آخر میں کہا کہ: اس لیے میں آپ حضرات سے یہ درخواست کروں گا کہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؓ کی بارگاہ ہو یا دیگر صلحاء اولیاء مقربین کی بارگاہیں، اُن بارگاہوں میں جب بھی جایا کرو تو اُن کے مزارات کی حاضری اُن کی ظاہری زندگی کی صحبت اور مجلس سے قطعًا مختلف نہیں ہے۔ اس لیے کہ جو فیضانِ نظر، فیضان روح اور فیضانِ صحبت ان کی حیاتِ ظاہری میں حاضر ہونے والوں کو میسر آتا تھا، وہی فیضانِ نظر اُن کا بعد از وصال بھی قائم اور دائم ہے۔
امام شافعیؒ کا امام موسی کاظمؓ کی قبرِ انور سے حصولِ فیض
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ:
قبر موسى الكاظم ترياق مجرّب لإجابة الدعاء
میں نے اپنی زندگی میں حضرت امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ کی قبرِ انور کو اجابتِ دعا کے لیے بہت مجرّب پایا۔ اُن کے مزارات کی حاضری ان کی ظاہری صحبت کی حاضری سے کم نہیں ہے۔ اُن کے فیوضات، توجہات اور برکات قائم اور دائم ہیں۔
حاصلِ کلام
اولیاء اللہ کی بارگاہ میں حاضری انسان کے دل و روح کو فیض، برکت اور سکون عطا کرتی ہے۔ جو شخص اپنی خواہشات اور ذاتی آرزوؤں کو چھوڑ کر، خالص نیت اور ادب کے ساتھ ان کے مزارات پر جاتا ہے، وہ دنیا و آخرت کی عزتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ اولیاء کی ظاہری صحبت کی طرح ان کی قبورِ انور پر حاضری بھی فیضانِ نظر اور فیضانِ روح کا ذریعہ ہے، اور یہ سلسلہ اُن کے وصال کے بعد بھی قائم و دائم رہتا ہے۔
تبصرہ