شب برات۔۔۔ بخشش و مغفرت کی رات
(حافظ فرحان ثنائی، ریسرچ سکالر FMRI، لاہور۔ farhan065@gmail.com)
اللہ رب العزت نے بعض چیزوں کو بعض چیزوں پر فضیلت سے نوازا ہے جیسا کہ مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، وادئ مکہ کو تمام وادیوں پر، بئرِ زمزم کو تمام کنوؤں پر، مسجدِ حرام کو تمام مساجد پر، سفرِ معراج کو تمام سفروں پر، ایک مؤمن کو تمام انسانوں پر، ایک ولی کو تمام مؤمنوں پر، صحابی کو تمام ولیوں پر، نبی کو تمام صحابہ پر، اور رسول کو تمام نبیوں پر اور رسولوں میں تاجدارِ کائنات سرور لولاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاص فضیلت اور مقام و مرتبہ پر فائز ہے اور بقول شاعر: بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
اللہ رب العزت نے اسی طرح بعض دنوں کو بعض پرفضیلت دی ہے، یومِ جمعہ کو ہفتہ کے تمام ایام پر، ماہِ رمضان کو تمام مہینوں پر، قبولیت کی ساعت کو تمام ساعتوں پر، لیلۃ القدر کو تمام راتوں پر اور شب برات کو دیگر راتوں پر۔ احادیثِ مبارکہ سے اس بابرکت رات کی جو فضیلت و خصوصیت ثابت ہے اس سے مسلمانوں کے اندر اس رات اتباع و اطاعت اور کثرتِ عبادت کا ذوق و شوق پیدا کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔
شب برات کی وجہ تسمیہ
احادیث مبارکہ میں ’’لیلۃ النصف من شعبان‘‘ یعنی شعبان کی 15 ویں رات کو شب برات قرار دیا گیا ہے۔ اس رات کو براۃ سے اس وجہ سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس رات عبادت کرنے سے اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی رحمت سے دوزخ کے عذاب سے چھٹکارا اور نجات عطا کر دیتا ہے۔
نزاعی مسئلہ میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کا حکم
شریعتِ اسلامیہ کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ دین کے جس معاملے میں بھی تنازع ہو جائے تو اُسے کتاب اللہ عز و جلّ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوٹایا جائیں پھر اگر دونوں کا یا کسی ایک کا اس مسئلہ کے جواز میں حکم ثابت ہو جائے تو شرعی طور پر اس کی اتباع کرنا واجب ہے اور مخالف ہونے کی صورت میں چھوڑنا ضروری ہے۔
1۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں متعدد مقامات پر اس کو صراحت سے بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَأَطِيعُواْ الرَّسُولَ وَأُوْلِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً.
(القرآن، النساء، 4 : 59)
’’اے ایمان والو! اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ امر کی، پھر اگر کسی مسئلہ میں تم باہم اختلاف کرو تو اسے(حتمی فیصلہ کے لیے) اﷲ اور رسول کی طرف لوٹا دو اگر تم اﷲ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو، (تو) یہی (تمہارے حق میں) بہتر اور انجام کے لحاظ سے بہت اچھا ہےO‘‘
2۔ دوسرے مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا :
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا.
(القرآن، النساء، 4 : 65)
’’پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنا لیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیںO‘‘
3۔ اپنی اور اپنے رسول کی اطاعت کو ایک مقام پر یوں بیان فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ.
(القرآن، الانفال، 8 : 20)
’’اے ایمان والو! تم اﷲ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رو گردانی مت کرو حالانکہ تم سن رہے ہوO‘‘
4۔ ایک جگہ اطاعت خدا اور رسول کو یوں بیان کیا گیا ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ.
(القرآن، محمد، 47 : 33)
’’اے ایمان والو! اﷲ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال (اپنی نادانی یا نافرمانی) سے ضائع نہ کروO‘‘
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت پر بکثرت آیات ہیں جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نزاعی اور اختلافی مسائل صرف انہی دو بارگاہوں سے حل ہو سکتے ہیں اور بندوں کی دنیاوی اور اخروی بھلائی صرف انہی سے وابستہ ہیں۔ لہٰذا شب برات کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے ہم انہی کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس حوالے سے مروی احادیث مبارکہ کی حجیت اور ثقاہت کا جائزہ لیتے ہیں۔
شب برات کی فضیلت اور اس میں اہتمامِ عبادت پر احادیثِ مبارکہ کا مطالعہ
امت مسلمہ کے جمیع مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت دونوں یا صرف قرآن یا سنت سے ثابت ہو جائے اس پر عمل واجب ہوتا ہے۔ وہ احادیث جو اس رات کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں ان میں حضرات سیدنا ابو بکر صدیق، سیدنا مولیٰ علی المرتضیٰ، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص، معاذ بن جبل، ابوہریرہ، ابو ثعلبہ الخشنی، عوف بن مالک، ابو موسیٰ اشعری اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم کے نام شامل ہیں۔ سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔ لیکن بعض لوگ اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے جو سراسر احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ ذیل میں شب برات کی فضیلت اور اس میں اہتمام عبادت کا احادیث مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے، اس کے ساتھ اِن احادیث مبارکہ کی اسانید کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی ثقاہت بھی واضح کی جائے گی اِن شاء اللہ۔
1۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
حدثنا عمرو بن مالک، قال: حدثنا عبد اﷲ بن وهب، قال: حدثنا عمرو بن الحارث، قال: حدثني عبد الملک بن عبد الملک، عن مصعب بن أبی ذئب، عن القاسم بن محمد، عن أبيه أو عمه، عن أبی بکر رضی الله عنه قال: قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ يَنْزِلُ اﷲُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا مَا کَانَ مِنْ مُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ لِأَخِيْهِ.
’’جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اﷲ تبارک وتعالی آسمانِ دنیا پر (اپنے حسب حال) نزول فرماتا ہے پس وہ مشرک اور اپنے بھائی سے عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘‘
1۔ بزاراپنی المسند، 1: 206، رقم: 80 میں اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ہم اس حدیث کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی صرف اسی طریق سے جانتے ہیں اور یہ حدیث حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ دیگر صحابہ سے بھی مروی ہے۔ سب سے اعلیٰ اسناد سے حضرت ابو بکر روایت کرتے ہیں اگرچہ اس اِسناد میں کچھ ہو، پس ابوبکر کی جلالت نے اسے حسین بنا دیا ہے۔ اگرچہ عبد الملک بن عبدالملک معروف راوی نہیں ہے،
مزید فرماتے ہیں:
وقد روی هذا الحديث أهل العلم ونقلوه و احتملوه فذکرنا لذالک.
’’اہلِ علم نے اس حدیث کو روایت کیا ہے، نقل کیا ہے اور اس پر اعتماد کیا ہے لہٰذا ہم نے اس کو ذکر کیا۔‘‘
٭ امام ابوبکر احمد بن عمرو المعروف بزار کی تاریخِ وفات 292ھ ہے۔ ان کے اس قول سے معلوم ہوا کہ شعبان کی پندرہویں شب کی فضیلت و خصوصیت تسلیم کرنا اور اس کو بیان کرنا اہل علم کا ابتدائی اَدوار سے طریقہ رہا ہے۔ لہٰذا موجودہ دور میں کوئی شخص بھی اگر شبِ برات کی غیر معمولی فضیلت کا انکار کرتا ہے تو درحقیقت وہ احادیث مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ناواقفیت کی بناء پر ایسا کر رہا ہوتا ہے۔
2۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8 : 65 میں کہا ہے کہ عبدالملک بن عبدالملک کو ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل میں ذکر کیا ہے اور اس کو ضعیف نہیں کہا (جو اس کے حجت ہونے پر دلالت کرتا ہے) جبکہ اس کے باقی رواۃ ثقہ ہیں۔
2۔ سیدنا علی بن ابی طالب ص سے مروی حدیث
حضرت علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَتْ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُومُوا لَيْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا فَإِنَّ اﷲَ يَنْزِلُ فِيهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْيَا فَيَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهُ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهُ؟ أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِيَهُ؟ أَلَا کَذَا؟ أَلَا کَذَا؟ حَتَّی يَطْلُعَ الْفَجْرُ.
’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کیا کرو اور اس کے دن روزہ رکھا کرو، بے شک اﷲ تعالیٰ اس رات اپنے حسبِ حال غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کوئی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟ یہاں تک کہ طلوعِ فجر ہو جاتی ہے۔‘‘
(ابن ماجه، السنن، 1: 444، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء فی ليلة النصف من شعبان، رقم: 1388)
اس حدیث میں ’’ابن ابی سبرۃ‘‘ کے علاوہ تمام رواۃ ثقہ ہیں۔
3۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی حدیث
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (بستر مبارک پر) نہ پایا پس میں آپ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقیع میں تشریف فرما ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَيَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعَرِ غَنَمِ کَلْبٍ.
’’یقینا اللہ تبارک و تعالیٰ (اپنی شان کے لائق) شعبان کی پندرہویں رات آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، پس وہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 6 : 238)
حجاج بن اَرطاۃ کو محدّثین نے مدلس کہا ہے لیکن اس سے حدیث لینا جائز قرار دیا ہے۔
(معرفة الثقات، 1 : 284)
سیوطی نے اس کو بعض رواۃ سے احادیث لینے کی بناء پر حافظ شمار کیا ہے۔
(طبقات الحفاظ، 1: 88)
یحییٰ بن ابی کثیر کوعجلی اور ابنِ حبان نے ثقہ اور ایوب نے زہری کے بعد اہل مدینہ میں سے حدیث کو سب سے زیادہ جاننے والا یحییٰ کو قرار دیا ہے۔ عروہ بن زبیر سے اس کی سماعت پر اختلاف کیا گیا ہے۔ یحییٰ بن معین نے اس کی سماعت کو عروہ سے ثابت کیا ہے۔
(جامع التحصيل، 1: 299)
اہلِ اصول اور فقہاء کرام نے ایک متفقہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ
المثبت مقدم علی النافی.
-
ابن دقيق العيد، شرح عمدة الأحکام، 1: 230
-
عسقلانی، فتح الباری، 1: 27
’’مثبت، منفی پر مقدم ہوتا ہے۔‘‘
لہٰذا ابنِ معین کے قول پر عمل کرتے ہوئے یحییٰ کی سماعت کو عروہ سے درست کہا جائے گا۔
٭ اس حدیثِ پاک کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل مبارک سے شبِ برات میں عبادت کرنا اور قبرستان جانا ثابت ہوا۔
4۔ حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیث
حَدَّثَنَا حَسَنٌ حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ حَدَّثَنَا حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اﷲِ عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: يَطَّلِعُ اﷲُ عَزَّوَجَلَّ إِلَی خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِعِبَادِهِ إِلَّا لِاثْنَيْنِ: مُشَاحِنٍ وَقَاتِلِ نَفْسٍ.
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ماہِ شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ اپنے بندوں کو معاف کر دیتا ہے سوائے دو لوگوں کے: سخت کینہ رکھنے والا اور قاتل۔‘‘
- احمد بن حنبل، المسند، 2 : 176، رقم : 63533
- امام منذری نے الترغیب والترھیب، 3 : 308 میں کہا ہے کہ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے لَیِّن (قلیل ضعف) سے روایت کیا ہے۔
- امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8 : 65 میں کہا ہے کہ اس روایت میں ابن لہیعۃ ہے جو کہ لین الحدیث ہے۔
- عبداللہ بن لہیعۃ بن عقبہ المصری کو سیوطی نے طبقات الحفاظ، 1 : 107 میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ امام احمد وغیرہ نے اسے ثقہ اور یحییٰ بن سعید القطان وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔
محدّثینِ کرام اس حدیث کے بقیہ رواۃ کے بارے میں فرماتے ہیں :
1۔ حسن بن موسی تابعی ہے۔ یحییٰ بن معین، علی بن مدینی اور ابنِ حبان نے انہیں ثقہ شمار کیا ہے۔
(عسقلانی تهذيب التهذيب، 2 : 279)
2۔ حیی بن عبد اللہ ثقہ ہے۔
(ابن حبان، الثقات، 6: 236)
3۔ ابو عبدالرحمن عبداللہ بن یزید الحبلی شامی تابعی ثقہ ہے۔
(عجلی، معرفة الثقات، 2: 66)
5۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
أخبرنا محمد بن المعافی العابد بصيدا وابن قتيبة وغيره قالوا: حدثنا هشام بن خالد الأزرق قال حدثنا أبو خليد عتبة بن حماد عن الأوزاعی وابن ثوبان عن أبيه عن مکحول عن مالک بن يخامر عن معاذ بن جبل عن النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال: يَطَّلِعُ اﷲُ إِلٰی خَلْقِهِ فِی لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِجَمِيْعِ خَلْقِهِ إلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ.
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ماہِ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، پس وہ مشرک اور بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے۔‘‘
-
ابن حبان، الصحيح، 12: 481، رقم: 5665
-
طبرانی، المعجم ا لأوسط، 7: 36، رقم: 6776
-
طبرانی، المعجم الکبير، 20: 108 رقم: 215
- امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں کہا ہے کہ اس روایت کو طبرانی نے المعجم الکبیر اور الاوسط میں روایت کیا ہے اور اِن کے رجال ثقہ ہیں۔
1۔ مالک بن یخامر السکسکی تابعی ثقہ ہے، انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف، معاذ بن جبل اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے اور ان سے مکحول شامی نے روایت کیا ہے۔
(مزی، تهذيب الکمال، 27: 167)
2۔ ابو عبداللہ مکحول شامی ثقہ ہے۔
(عسقلانی، تقريب التهذيب، 1: 545)
اس حدیث مبارکہ کی ثقاہت سے پہلی حدیث بھی قوی ہو گئی ہے اور اس کا ضعف ختم ہو گیا ہے۔
6۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
ان ہی الفاظ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، يَغْفِرُ اﷲُ لعباده إلَّا لِمُشْرِکٍ أَوْ مُشَاحِنٍ.
’’جب ماہِ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ شرک کرنے والے اوربغض رکھنے والے کے سوا اپنے تمام بندوں کی بخشش فرما دیتا ہے۔‘‘
1۔ بزار، المسند، 2: 435۔ 36 4، امام ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی ہشام بن عبدالرحمن کو میں نہیں جانتا، اس کے باقی رُواۃ ثقہ ہیں۔
7۔ حضرت ابو ثعلبہ الخشنی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
حدثنا أحمد بن نضر العسکری ثنا محمد بن آدم المصيصی ثنا المحاربي عن الأحوص بن حکيم عن حبيب بن صهيب عن مکحول عن أبي ثعلبة أن النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال: يَطْلُعُ اﷲُ عَلٰی عِبَادِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَيَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ وَيُمْهِلُ الْکَافِرِيْنَ، وَيَدَعُ أهْلَ الْحِقْدِ بِحِقْدِهِمْ حَتَّی يَدَعُوْهُ.
حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’اللہ رب العزت شعبان کی پندرہویں رات کو اپنے بندوں پر مطلع ہوتا ہے، پس وہ مومنوں کی مغفرت فرماتا ہے اور کافروں کو مہلت دیتا ہے اور وہ اہل حسد کو ان کے حسد میں چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اسے ترک کر دیں۔‘‘
-
طبرانی، المعجم الکبير، 22: 223، رقم: 590
-
ابن ابی عاصم، السنة، 1: 223، رقم: 511
- ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں اس کے ایک راوی احوص بن حکیم کو ضعیف کہا ہے۔
- شیخ محمد ناصر الدین البانی (اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے امام) نے اپنی کتاب ’’ظلال الجنۃ فی تخریج السنۃ لابن ابی عاصم، 1: 223 ‘‘ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، اور احوص بن حکیم جو کہ ضعیف الحفظ ہے کہ سوا تمام رواۃ ثقہ ہیں جیسا کہ ’’التقریب‘‘ میں ہے۔ پس اس کی مثل سے استشہاد کیا جائے گا کیونکہ وہ اپنے بعد وغیرہا کے طریق کے سبب قوی ہو جاتا ہے۔
دار قطنی نے احوص بن حکیم کے بارے میں کہا ہے کہ ’’اس پر اس صورت میں اعتبار کیا جائے گا جب کوئی ثقہ راوی اس سے روایت کرے۔‘‘ اور ابن عدی نے کہا ہے کہ’’اس سے بہت سی روایات مروی ہیں اور وہ ان رواۃ میں سے ہیں جن کی احادیث لکھی جاتی ہیں اور ثقہ رواۃ کی ایک جماعت نے اس سے حدیث لی ہے اور اس میں کوئی منکر چیز نہیں ہے جس کا وہ رد کرتے مگر یہ کہ وہ ایسی اسانید بیان کریں جن کی اتباع نہیں کی جا سکتی۔‘‘
(مزی، تهذيب الکمال، 2: 293. 294)
8۔ حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
يَطْلُعُ اﷲُ عَلَی خَلْقِهِ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ کُلَّهُمْ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أوْ مُشَاحِنٍ.
’’ماہِ شعبان کی نصف شب (یعنی پندرہویں رات) کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف توجہ فرماتا ہے، پس وہ شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے سوا ہر ایک کی مغفرت فرما دیتا ہے۔‘‘
1۔ بزار، المسند، 7: 186، رقم: 2754، ہیثمی نے مجمع الزوائد، 8: 65 میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں عبدالرحمن بن زیاد بن انعم ہے، احمد بن صالح نے اسے ثقہ اور جمہور ائمہ نے ضعیف کہا ہے اور ابن لہیعۃ کمزور راوی ہے باقی اس کے رجال ثقہ ہیں۔
2۔ ابنِ شاہین نے تاریخ اسماء الثقات، 1: 147 میں عبدالرحمن بن زیاد بن انعم کا ذکر کیا ہے اور یحییٰ بن معین نے کہا ہے کہ اس سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ اس میں ضعف ہے۔
9۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ لَيَطَّلِعُ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِجَمِيعِ خَلْقِهِ إِلَّا لِمُشْرِکٍ أوْ مُشَاحِنٍ.
’’بے شک اللہ رب العزت ماہ شعبان کی نصف شب (پندرہویں رات) کو (اپنی مخلوق کی طرف) متوجہ ہوتا ہے، سو وہ مشرک اور کینہ پرور کے سوا اپنی تمام مخلوق کو معاف کر دیتا ہے۔‘‘
1. ابن ماجه، کتاب اقامة الصلاة والسنة فيها، باب ماجاء فی ليلة النصف من شعبان، 1 : 445، رقم : 1390
1۔ امام ابنِ ماجہ کی بیان کردہ یہ روایت مرفوع منقطع ہے کیونکہ اس میں ضحاک بن عبدالرحمن بلا واسطہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں لیتے۔ لیکن یہی حدیث ابن ماجہ نے اور ہبۃ اﷲ بن حسن لالکائی نے شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، 3 : 447، رقم : 763 میں ذکر کی ہے جس کے مطابق: ابنِ لہیعۃ نے زبیر بن مسلم، انہوں نے ضحاک، انہوں نے اپنے والد عبدالرحمن بن عزرب اور انہوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کی ہے۔
2۔ مزی نے تہذیب الکمال، 9 : 308، رقم : 1964 میں یہی حدیث ایک بہت اعلیٰ سند سعید بن عفیر سے ابنِ لہیعۃ انہوں نے زبیر بن سلیم کے واسطہ سے بیان کی ہے۔ لہٰذا اس حدیث کے صحیح مرفوع متصل ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔
10۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ : هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ فَأغْفِرَ لَهُ؟ هَلْ مِنْ سَائِلٍ فَأعْطِيَهُ؟ فَـلَا يَسْألُ أحَدٌ إَلَّا أعْطِيَ إِلَّا زَانِيَةٌ بِفَرْجِهَا أوْ مُشْرِکٌ.
(بيهقی، شعب ا لإيمان، 3: 383، رقم: 3836)
’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو منادی ندا دیتا ہے: کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں؟ پس زانیہ اور مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کر دیا جاتا ہے۔‘‘
خلاصہ بحث
اس بحث کو درج ذیل نکات میں سمیٹا جا سکتا ہے :
1۔ تمام احادیثِ مبارکہ سے شبِ برات کی فضیلت اور خصوصیت اجاگر ہوتی ہے اور اس شک و شبہ کا قلع قمع ہوتا ہے کہ اس باب میں تمام احادیث ضعیف ہیں۔ ہر حدیث کے ضعیف راوی پر سیر حاصل گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ تمام احادیث ایک دوسرے سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہیں۔
2۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ شب برات پر احادیث کو روایت کرنے والے صحابہ کرام ث کی سطح تک تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے لہٰذا اتنے صحابہ کا کسی مسئلہ پر احادیث روایت کرنا ان کی حجیت اور قطعیت کو ثابت کرتا ہے۔
3۔ اگر بعض احادیث ضعیف بھی ہوں تو محدّثین کرام نے خود اس بات کی تصریح کی ہے کہ ضعیف احادیث متعدد طرق سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہوتی ہیں۔
4۔ تیسرا اہم قاعدہ محدّثین نے اپنی کتابوں میں یہ درج کیا کہ فضائل میں بالاتفاق ضعیف روایات بھی قابل قبول ہو جاتی ہیں، جبکہ شب برات پر احادیثِ حسنہ مروی ہیں۔
شب برات میں اہتمام عبادت پر سلف صالحین کی آراء اور معمول
1۔ حضرت علی، حضرت عائشہ صدیقہ اور عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہم سے مروی مذکورہ بالا احادیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور امر سے اس کی حجیت ثابت ہے۔
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہِ شعبان میں رمضان کے علاوہ باقی تمام مہینوں سے بڑھ کر عبادت کرتے تھے، لہذا شبِ برات کو اس سے کس طرح خارج کیا جا سکتا ہے؟ بلکہ یہ رات دوسری راتوں کی نسبت عبادت کی زیادہ مستحق ہے۔
3۔ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں:
خمس ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، و أول ليلة من رجب، و ليلة النصف من شعبان، و ليلتی العيدين.
(عبد الرزاق، المصنف، 4: 317، رقم: 7927)
’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں کی جاتیں: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرھویں رات، دونوں عیدوں کی راتیں۔‘‘
4۔ علامہ ابنِ تیمیہ نے اس رات میں عبادت اور قیام پر لکھا ہے:
سئل ابن تيمية عن صلاة نصف شعبان؟ فأجاب : إذا صلی الانسان ليلة النصف وحده أو فی جماعة خاصة کما کان يفعل طوائف من السلف فهو أحسن.
(مجموع فتاوی ابن تيميه، 23: 131)
’’ابنِ تیمیہ سے نصف شعبان میں نفلی نماز ادا کرنے کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: جب کوئی بھی انسان نصف شعبان کی رات کو اکیلا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ سلف میں سے بہت سارے گروہ اس کا اہتمام کرتے تھے تو یہ بہت خوب ہے۔‘‘
5۔ حافظ ابنِ رجب حنبلی لکھتے ہیں:
’’شعبان کی 15ویں شب کو اہلِ شام کے تابعین خالد بن معدان، لقمان بن عامر اور ان کے علاوہ دیگر اِس رات کی تعظیم کرتے اور اس میں بے حد عبادت کرتے۔ وہ اِس رات مسجد میں قیام کرتے۔ اس پر امام اسحاق بن راہویہ نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس رات کو مساجد میں قیام کرنا بدعت نہیں ہے۔‘‘
(لطائف المعارف: 263)
شب برات پر اتنی کثیر تعداد میں مروی احادیث صرف اس لیے نہیں ہیں کہ کوئی بھی بندہ مؤمن فقط ان کا مطالعہ کر کے انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے صرفِ نظر کر دے، بلکہ ان احادیث کے بیان کا مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کائنات کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے باسہولت میسر ہو سکتا ہے۔ اِن بابرکت راتوں میں رحمتِ الٰہی اپنے پورے جوبن پر ہوتی ہے اور اپنے گناہگار بندوں کی بخشش و مغفرت کے لیے بے قرار ہوتی ہے لہٰذا اس رات میں قیام کرنا، کثرت سے تلاوتِ قرآن، ذکر، عبادت اور دعا کرنا مستحب ہے اور یہ اعمال احادیثِ مبارکہ اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت ہیں۔ اس لیے جو شخص بھی اب اس شب کو یا اس میں عبادت کو بدعتِ ضلالۃ کہتا ہے وہ درحقیقت احادیثِ صحیحہ اور اعمالِ سلف صالحین کا منکر ہے اور فقط ہوائے نفس کی اتباع اور اطاعت میں مشغول ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حق کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !
تبصرہ