تعلیم کے نام پر 541 ملین ڈالر کی عالمی امداد خوردبرد ہوئی : عوامی تحریک کا وائٹ پیپر
ناخواندہ بالغ افراد کی تعداد 49 ملین، 59 فیصد خواتین تعلیم سے
محروم، نظام تعلیم 60 سال پرانا
دنیا کی 500 بہترین یونیورسٹیوں میں پاکستان کی ایک بھی شامل نہیں، وائٹ پیپر میں 14
تجاویز بھی شامل
بھوٹان، مالدیپ تعلیم پر پاکستان سے زیادہ خرچ کرتے ہیں، میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے
حصول میں ناکامی
حقائق نامہ صوبائی صدور بشارت جسپال، فیاض وڑائچ اور بریگیڈیئر(ر) محمد مشتاق نے جاری
کیا
لاہور (9 اکتوبر 2016) پاکستان عوامی تحریک نے تعلیمی شعبہ کی کارکردگی کے حوالے سے وائٹ پیپر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملکی و غیر ملکی اداروں کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں معیاری تعلیم زبوں حالی کا شکار ہے۔ وائٹ پیپر عوامی تحریک کے سینئر رہنماؤں بشارت جسپال، فیاض وڑائچ اور بریگیڈیئر (ر) محمد مشتاق نے جاری کیا۔ وائٹ پیپر کے مطابق تعلیم کے نام پر 541 ملین ڈالر کی عالمی امداد خوردبرد ہوئی۔ یونیسکو کے گلوبل ایجوکیشن ڈائجسٹ 2010 کے مطابق پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد 541 ملین ڈالر کی سب سے بڑی عالمی تعلیمی امداد ملی مگر اس کے باوجود تعلیمی ترقی اور شرح خواندگی کے اشاریے بہتر نہ ہو سکے۔ صوبہ میں 9 سو سرکاری سکول، کالج مستقل سربراہوں سے محروم ہیں۔ 5 سو زائد سکولوں پر قبضے ہیں۔
صوبے میلینیم ڈویلپمنٹ گولز 2015 ء کا ایک بھی ہدف حاصل نہ کر سکے۔ ان اہداف میں سکول جانے کی عمر کے بچوں کی 100 فیصد انرولمنٹ اول تاپنجم جماعت کے طلبہ کی سو فیصد حاضری اور شرح خواندگی کا ہدف 88 فیصد تک بڑھانا شامل تھا۔ وائٹ پیپر کے مطابق جنوبی ایشیاء میں پاکستان تعلیم پر سب سے کم خرچ کرنے والا ملک ہے۔ بھوٹان جی ڈی پی کا 4.9 فیصد، بھارت 3.9 فیصد، ایران 4.7 فیصد، مالدیپ 8فیصد، ترکی 6 فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان جی ڈی پی کا 2فیصد خرچ کرتا ہے۔
وائٹ پیپر میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یونیسکو کی ایجوکیشن فار آل گلوبل مانیٹرنگ رپورٹ 2015 ء کے مطابق 49 ملین بالغ افراد لکھنا پڑھنا نہیں جانتے۔ دنیا کے 6.30 فیصد ناخواندہ بچوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ پرائمری سکولوں میں داخل ہونے والے 33 فیصد بچے 5 ویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے ہی سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ تعلیم و تربیت کے معیار (سٹینڈرڈ آف ایجوکیشن) کے اعتبار سے پاکستان جنوبی ایشیا میں 123 ویں نمبر پر ہے۔ اقوام متحدہ کی گلوبل ایجوکیشن مانیٹرنگ رپورٹ 2016 ء کے مطابق پاکستان کا سکینڈری ایجوکیشن سسٹم 60 سال پرانا ہے۔ دیہات میں لڑکوں میں شرح خواندگی 64 فیصد جبکہ لڑکیوں میں یہ شرح 14 فیصد ہے۔
حقائق نامہ میں کہا گیا کہ بعض ملکی و غیر ملکی اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں آؤٹ آف سکول بچوں کی تعداد 25 ملین ہے۔ تاہم مردم شماری نہ ہونے کے باعث ریاست کے پاس اپنے آؤٹ آف سکول بچوں کی حقیقی تعداد دستیاب نہیں۔ وائٹ پیپر کے مطابق عالمی رینکنگ کے حوالے سے پاکستان کی ایک بھی یونیورسٹی دنیا کی بہترین 500 یونیورسٹیوں میں شامل نہیں جبکہ اس میں چین کی 24 اور ترکی کی 5 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ رہنماؤں نے کہا کہ حکمران چین سے اورنج لائن، ترکی سے میٹرو منصوبے لانے کے ساتھ ساتھ ان دوست ممالک کے کامیاب تعلیمی ماڈل کو بھی فالو کریں۔ وائٹ پیپر میں کہا گیا کہ پاکستان اکنامک سروے 2015 ء کے مطابق شرح خواندگی 60 فیصد سے کم ہو کر 58 فیصد پر آگئی۔ لاہور جیسے شہر میں 2 لاکھ 90 ہزار بچے سکول نہیں جاتے۔
نیشنل نیوٹریشن سروے 2015ء کے مطابق 59.3 فیصد خواتین ناخواندہ ہیں۔ خواتین میں ناخواندگی کی یہ شرح شہروں میں 36.6 اور دیہات میں 69.4 فیصد ہے۔ ادارہ شماریات پنجاب کے مطابق گزشتہ ایک دہائی میں صوبہ میں 75 فیصد مسجد، مکتب سکول بند ہوئے مگر آبادی میں اضافہ کے باوجود مزید نئے سکول قائم نہیں کیے گئے۔ وائٹ پیپر میں پنجاب میں سرکاری سکولوں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کے پروگرام پر بھی کڑی تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ اب تک 5 ہزار سرکاری سکولوں کی عملاً ’’نجکاری ‘‘ہو چکی ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے اصل چیلنج پرائیویٹ سکولوں کو ریگولیٹ کرنے کا ہے جس میں حکومت مکمل طور پر فلاپ اور غیر سنجیدہ ہے۔
تعلیمی شعبہ میں بہتری لانے کیلئے 14 تجاویز کو بھی وائٹ پیپر کا حصہ بنایا گیا ہے:
- اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ تمام صوبے آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق 5 سے 16 سال کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کریں۔
- پرائیویٹ سکولوں کو ریگولیٹ کیا جائے، اساتذہ کی تربیت اور نصابی اصلاحات پر توجہ دی جائے۔
- آؤٹ آف سکول بچوں کے حوالے سے مردم شماری کروائی جائے۔
- تعلیمی بجٹ جی ڈی پی کے کم از کم 4 فیصد تک لایا جائے۔
- سکولوں پر قبضے ختم اور تعلیمی اداروں میں مستقل سربراہ مقرر کیے جائیں۔
- تعلیم کے ترقیاتی بجٹ کے 100 فیصد استعمال کو یقینی بنایا جائے۔
- تمام سرکاری سکولوں کو بنیادی سہولتوں کی 100 فیصد فراہمی یقینی بنائی جائے۔
- اساتذہ کے مطالبات پورے کیے جائیں تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ درس و تدریس کے فریضہ کو جاری رکھ سکیں۔
- مستقل وزرائے تعلیم کے تقرر کو یقینی بنایا جائے۔
- اساتذہ سے درس و تدریس کے علاوہ ہر قسم کی ڈیوٹی کو بذریعہ قانون ختم کیا جائے۔
- میلینیم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول کو مقررہ مدت کے اندر یقینی بنانے کیلئے سپیشل ٹاسک فورس بنائی جائے۔
- ملک بھر میں سائنس ٹیچرز کی اسامیاں پر کی جائیں اور عالمی معیار کے مطابق ٹیچنگ میتھڈ اختیار کیا جائے۔ نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کیا جائے۔
- ملک میں 5سال کیلئے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی جائے۔
- تعلیم کے شعبہ کو کرپشن فری بنانے کیلئے زیروٹالرینس پالیسی اختیار کی جائے۔
تبصرہ