حضور قدوۃ الاولیاء اور تحریک منہاج القرآن
تحریر : شہزاد رسول قادری (منہاجین)اللہ رب العزت نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن خصائص سے نوازا ہے ان میں سے ایک اہم خصوصیت تجدید و احیاء کا ایک روحانی نظام ولایت بھی ہے جو بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لیکر آج تک نافذ العمل ہے جس کی فیوض و برکات سے کشت ایمان و ایقان آج بھی مہک رہی ہے یہ روحانی نظام اسلام کے عقیدہ و عمل کی متحرک روح ہے اور ظاہر و باطن کی دنیا میں انقلاب آفریں تبدیلیوں کا نصاب بھی۔ دنیائے روحانیت، اسلام کے ثقافتی پس منظر کا سب سے دلآویز مظہر ہے۔ اسی نظام ولایت کی بدولت ذہنوں میں تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کے چراغ روشن ہیں اور رشد و ہدایت کے سلاسل جاری ہیں جو تشنہ روحوں کی پیاس بجھاتے ہیں اور بریدہ جسموں پر آسودگی کا مرہم رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مسلمانان عالم تاریخ کے مشکل ترین لمحات میں بھی استحصالی قوتوں کے مدمقابل پورے اعتماد کے ساتھ سینہ سپر رہے ہیں اس حقیقت کا اعتراف بہت سے غیر مسلم مفکرین اور مورخین نے بھی با رہا کیا ہے۔
اس روحانی تربیتی نظام کی روح رواں شخصیات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفائے راشدین، صحابہ کرام اور تابعین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے کے بعد سب سے بلند قامت ہستی حضور سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جن کی حیات و خدمات کے عالمگیر اثرات تقریباً ایک ہزار سالہ سابقہ تاریخ میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ آپ کے روحانی اور نسبی فرزندوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اطراف و اکناف عالم میں علم و عمل کے چراغ روشن کئے۔ برصغیر پاک وہند ہو یا جنوب مشرقی ایشیاء، براعظم افریقہ ہو یا جزیرہ نمائے عرب ہر جگہ حضور غوثیت مآب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیض یافتگان نے اسلام کے پرچم گاڑ رکھے ہیں۔
برصغیر پاک وہند کو یہ شرف حاصل ہے کہ حضور سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے فیوض و برکات کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی اس سر زمین میں پہنچ گیا تھا۔ بعض روایات کے مطابق سب سے پہلے ان کے بڑے فرزند حضرت سیدنا شیخ عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ ہندوستان تشریف لائے اور کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد واپس بغداد تشریف لے گئے اس کے بعد سے آج تک برصغیر پاک وہند سے کسب فیض کے لئے مشائخ، اولیاء، صلحاء، امراء و سلاطین اور عوام الناس کی بغداد آمدو رفت کا سلسلہ جاری ہے ہر عہد میں اہل دل حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی اولاد کو ہندوستان و پاکستان تشریف لانے کی دعوت دیتے رہے اور وقتاً فوقتاً خاندان گیلانیہ کے اکابر اور مشائخ ہندوستان اور پاکستان تشریف لاتے رہے۔
ہمارے عہد میں اس کی زندہ مثال آل نقیب الاشراف قدوۃ الاولیاء حضرت پیر سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات ہے آپ نے اسلامیان برصغیر پاک و ہند کی روحانی تربیت اور سلسلہ قادریہ کے روحانی فیض کی تقسیم کے لئے نہ صرف اپنے وطن مالوف کو ترک کیا بلکہ اپنے جد امجد کے حکم پر روحانی تجلیات کے مرکز بغداد کو چھوڑ کو 1956ء لاہور میں حضور داتا گنج بخش سیدنا علی ہجویری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ بغداد شریف سے لاہور تشریف لائے اور چند دنوں کے لئے حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے مزار اقدس پر چلہ کش ہوگئے یہ وہی مقام ہے جہاں حضرت خواجہ اجمیر رحمۃ اللہ علیہ ولایت ہند کی تاجداری کی سپردگی کے لئے چلہ کش ہوئے تھے حضور قدوۃ الاولیاء نے یہاں پر قیام کے بعد پاکستان کے شہر کوئٹہ میں مستقل سکونت اختیار کی۔
تاریخ اسلام کا مطالعہ کرنے سے ایک چیز روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ آج تک اسلام کی تاریخ میں جتنی بھی تحریکوں نے کام کیا۔ وہ روحانی اقدار کے احیاء کے لئے ہوں یا غلبہ دین حق کی بحالی کے لئے یا خانقاہی نظام کے احیاء کے لئے ہوں مختصر یہ ہے کہ کسی بھی نیک اور عظیم کام کے لئے جو بھی جدوجہد ہو اس کے پیچھے ضرور کسی مرد قلندر کا ہاتھ ہوتا ہے جس کی نگاہ بصیرت اور فیض خاص سے وہ جدوجہد کامیاب ہوتی ہے اور منزل مقصود تک پہنچا جاتا ہے۔
تحریک منہاج القرآن جو کہ مکین گنبد خضریٰ کے نعلین پاک کے صدقے سے فیضان غوثیت مآب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور زیر سایہ قدوۃ الاولیاء حضور سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کافی عرصہ پہلے ایک موقع پر جب شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب سے یہ سوال کیا گیا کہ ان کے موجودہ مقام ومرتبے تک پہنچنے میں ان کے پیرومرشد حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کیا کردار ادا کیا ہے تو شیخ الاسلام نے جواباً فرمایا کہ میں نے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لطف وکرم اور عنایات سے جو روحانی فیوض و برکات حاصل کئے ہیں میں یہ دل وجان سے محسوس کرتا ہوں کہ میرے لئے ان تمام تر فیوض و برکات کا ذریعہ حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات گرامی ہی تھی اور حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے ہر قدم پر روحانی اعتبار سے سنبھالا ہے۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں ’’میں نے اپنے جھنگ کے زمانہ قیام کے دوران جب اپنی زندگی میں یہ عزم کیا تھا کہ میں احیائے اسلام اور اتحاد امت کے لئے ایک عالمگیر تحریک کا آغاز کروں گا تو اس وقت حضور سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک زیارت میں مجھے دکھایا گیا تھا۔
استخارہ کے دوران مجھے تین مرتبہ ان کی زیارت ہوئی اور بالآخر حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیارت میں آ کر مجھے سیدنا طاہر علاؤالدین کے ہاتھ پر بیعت ہو جانے کا حکم دیا۔ میں کوئٹہ میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے دست اقدس پر بیعت ارادت کے بعد ایک اور بیعت کی۔ میں اس دوسری بیعت کو بیعت انقلاب کا نام دیتا ہوں۔ حضور شیخ الاسلام نے حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر اللہ رب العزت سے عہد کیا کہ میں اپنی زندگی احیائے اسلام کے لئے وقف کردوں گا۔ پھر ساری زندگی حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہراً اور باطناً اپنی محبتوں میں ہمیشہ مجھے دین اسلام کی خدمت کے لئے کمر بستہ رہنے کے لئے اپنی گراں قدر ہدایات اور دعاؤں سے نوازا اور میں نے کئی بار محسوس کیا کہ مجھے زندگی میں ہر لمحہ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی تائید حاصل رہی ہے۔ انہوں نے بعض معاملات میں مجھے اکثر اس وقت متنبہ کیا جب مجھے ان معاملات میں پیش آنے والے حالات کا گماں تک بھی نہیں تھا لیکن کافی وقت گذرنے کے بعد وہ صورت حال اسی طرح اور اسی وقت سامنے آئی جس کی نشان دہی وہ بہت پہلے کرچکے تھے۔ ادارہ منہاج القرآن کا سنگ بنیاد انہیں کے ہاتھوں سے رکھا گیا تھا۔ حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں دراصل انہوں نے ادارہ منہاج القرآن کا سنگ بنیاد ہی نہیں رکھا تھا بلکہ اس تحریک کا آغاز بھی فی الحقیقت انہیں کے ایماء پر کیا گیا تھا۔ میں نے ان کی ہدایت پر کراچی میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ میرے سب سے پہلے درس قرآن کا افتتاح بھی حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے کیا اور بحمداللہ دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں میرے درس قرآن کو اس قدر مقبولیت ملی کہ سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ کوئٹہ میں بھی درس قرآن کا افتتاح آپ ہی کے دست مبارک سے ہوا۔ حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ حضور غوث الاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کرم اور فیضان حضور قدوۃ الاولیاء سے ہر زبان خاص و عام پر منہاج القرآن ہی تھا۔
تحریک منہاج القرآن پر حضور قدوۃ الاولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صرف روحانی سرپرستی فرماتے بلکہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والے پروگرام میں آپ خود شیخ الاسلام کی دعوت پر تشریف لے جاتے۔ آپ کی صدارت میں ہر بڑا پروگرام منعقد ہوتا تھا جو حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا تحریک منہاج القرآن کے ساتھ گہرا تعلق، نوازشات اور مہربانیوں کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں کہ جب ہم نے ادارہ منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ کے لئے قطعہ اراضی خریدا اس وقت ہمارے پاس پچیس ہزار روپے کے علاوہ کوئی رقم نہیں تھی جبکہ وہ قطعہ اراضی دس لاکھ روپے کا تھا جب حضور قدوۃ الاولیاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مالی مشکلات کے بارے بتا کر دعا کے لئے درخواست کی تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا پروفیسر صاحب ’’جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کے لئے کافی ہوجاتا ہے‘‘ اور مزید فرمایا ’’اللہ آپ کے مشن کی تکمیل کے لئے ایسے اسباب پیدا کرے گا کہ آپ اس کا گمان تک نہیں کرسکتے‘‘۔
حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں اس کے بعد ادارہ منہاج القرآن کے سلسلہ میں کبھی مالی مشکلات پر پریشان نہیں ہوا۔ جب سے میرے مرشد حضور سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس ادارے کا سنگ بنیاد رکھ کر دعا فرمائی ہے اس کے بعد سے اللہ رب العزت نے اپنے غیبی دروازے کھول دیئے ہیں اور احیائے اسلام کی جو تحریک ادارہ منہاج القرآن کی صورت میں شروع کی گئی میں سمجھتا ہوں یہ تحریک اللہ پاک کے فضل وکرم، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے نعلین پاک کے تصدق سے سرکار بغداد کی نظر عنایت اور میرے مرشد گرامی کی روحانی سرپرستی کے باعث ہی ممکن ہوئی ہے۔
حضور کی تحریک منہاج القرآن کے ساتھ تعلق خاص کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض دفعہ کئی تنظیمات نے اشتہارات پر حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کا نام چھاپ دیا جس پر اکثر آپ نے فرمایا ’’دیکھو میرا نام بیچتے ہیں جبکہ میں نے دعوت قبول نہیں کی۔ بغیر اجازت نام کیوں چھاپا‘‘ مگر قربان جائیں تحریک منہاج القرآن کے ساتھ آپ کی شفقت پر کہ قبلہ قائد محترم کی ایک دعوت بھی مسترد نہ ہوئی۔ ادارے کے سنگ بنیاد سے لے کر آخری وقت تک ہر پروگرام کی مکمل سرپرستی رہی، کانفرنسز (انٹرنیشنل ویمبلے کانفرنس، منہاج القرآن کانفرنسز، ختم نبوۃ کانفرنس، غوث الاعظم کانفرنس وغیرہ) کی صدارت۔ تمام عمارتوں کا سنگ بنیاد اور افتتاح اور تقریباً ہر سال لاہور تشریف آوری انتہائی کمزور صحت کے باوجود لاہور چوبرجی میں غوث الاعظم کانفرنس کی صدارت حتی کہ آخری آرام گاہ کے لئے مرکز روحانی جامع المنہاج لاہور تشریف لے آئے۔
آخری مرتبہ بڑی گیارہویں شریف کے موقع پر جب قائد محترم نے لاہور میں غوث الاعظم کانفرنس کی صدارت کے لئے دعوت عرض کی تو حضور کی صحت انتہائی کمزور تھی، بغیر سہارے کے اٹھنا بیٹھنا دشوار تھا۔ مگر علالت طبع کے باوجود حضور پیر صاحب نے کچھ دیر خاموشی کے بعد ہاں کردی۔ اس پر فیصل آباد کے احباب نے مشورہ کیا کہ اس دفعہ لاہور کے سبب فیصل آباد پروگرام کے حوالے سے بھی حضور سے عرض کریں گے چنانچہ ہم سب اکٹھے ہوکر حاضر ہوئے۔ عرض کی تو حضور نے فرمایا کہ یہ طاہرالقادری ہے کہ جس کی بات ماننا پڑتی ہے وگرنہ آپ میری صحت تو دیکھ ہی رہے ہیں۔ صرف ایک رات کا قیام ہے اگلی صبح واپسی ہے۔
حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ جب 12 مارچ 1987ء میں لاہور تشریف لائے اس موقع پر حضور رحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن کا افتتاح فرمایا۔ آپ کے قدموں کے طفیل یہ جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن اب منہاج یونیورسٹی کی صورت اختیار کرچکا ہے جو حکومت پاکستان کی طرف سے چارٹرڈ یونیورسٹی ہے اس میں ہزاروں طلبا و طالبات اندرون و بیرون ملک سے تعلیم کے زیور سے آراستہ ہورہے ہیں۔ افتتاح کے موقع پر طلباء اور اساتذہ کے ساتھ حضور قدوۃ الاولیاء کی خصوصی نشست رکھی گئی تھی آپ نے طلباء کو عربی زبان میں پندو نصائح سے نوازا اور دریافت فرمایا کہ آیا وہ ان کی بات سمجھ گئے ہیں یا نہیں اس پر پروفیسر صاحب نے درخواست کی کہ حضور! طلباء کے لئے چند ناصحانہ کلمات اردو زبان میں بھی ارشاد فرمادیجئے آپ رحمۃ اللہ علیہ کے وہ تاریخی الفاظ کچھ یوں ہیں جو طلبا سے ارشاد فرمائے۔
’’آپ اس ملت کا مستقبل ہیں آپ نے دور حاضر کی امڈتی ہوئی گمراہیوں کا مقابلہ کرنا ہے۔ خود کو علم و عمل میں اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل بناؤ‘‘۔
اس مرحلے پر حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نیاز مندی اور عقیدت کا یہ عالم تھا کہ آپ یہ عرض کرتے ہوئے حضور قدوۃ الاولیاء کے قدموں میں گر گئے اور عرض کیا ’’حضور! آپ ہمارے مستقبل کی عزت اور وقار ہیں‘‘ درد و سوز کی کیفیت چھاگئی۔ طلباء اور اساتذہ کی آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے اور وہ اس قدر روئے کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ان آنسوؤں، آہوں اور سسکیوں کی فضاء میں شہزادہ غوث الوریٰ حضور قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز بلند ہوئی اور آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔
’’تم ہی کامیاب ہوگے اللہ تمہاری مدد کرے گا تمہارے ذریعے اسلام کو غلبہ ملے گا‘‘۔
حضور قدوۃ الاولیا رضی اللہ عنہ یہ فرمایا کرتے تھے کہ ادارہ منہاج کے رفقاء و اراکین ہمارے بچے ہیں۔
حضور قدوۃ الاولیاء رضی اللہ عنہ کی نگاہِ فیض اور سرکار بغداد حضور غوث الاعظم دستگیر رضی اللہ عنہ کی توجہات کا ہی نتیجہ ہے کہ آج تحریک منہاج القرآن کا 100 سے زائد ممالک میں تنظیمی نیٹ ورک ہے۔ دنیا میں اسلامک سنٹرز، ویلفیئر سنٹرز، لائبریریز، دین اسلام اور انسانیت کی فلاح کے لئے رات دن مصروف عمل ہیں۔ اسی طرح پاکستان اور بیرون ممالک ہزاروں تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جن میں طلباء آج دور جدید کے مطابق اسلامی، روحانی، سائنسی علوم اور تربیت حاصل کرکے دنیا میں اسلام کے غلبہ اور احیائے دین کے لئے مختلف جگہوں پر جدوجہد کررہے ہیں۔
جس شخص نے ان چیزوں کا عملی مشاہدہ کرنا ہے وہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب کی آڈیو ویڈیو کیسٹس اور سی ڈیز کو ضرور سنے اور آپ کی کتب کا مطالعہ کرے۔ ان خطابات اور کتب میں سرکار غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے فیض اور حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے علم کی جھلک نظر آئے گی۔ یہاں پر حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے علم کے متعلق ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا چلوں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب فرماتے ایک دفعہ ہم کراچی کسی پروگرام کے سلسلہ میں گئے۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد حسبِ معمول حضور قدوۃ الاولیاء کی بارگاہ میں حاضری کے لئے گئے۔ اس موقع پر شہنشاہ طب جناب حکیم محمد سعید (مرحوم) بھی ساتھ تھے۔ حکیم سعید صاحب کے ساتھ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی طب کے اوپر کافی دیر تک گفتگو چلتی رہی۔ بہر حال ہم لوگ حاضری اور قدم بوسی سے فارغ ہوکر جب باہر نکلے تو پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ حکیم سعید صاحب نے مجھے کہا: قادری صاحب پیر صاحب کے ساتھ طب، جڑی بوٹیوں کے متعلق جو بات ہوئی واللہ مجھے ان میں سے صرف 50 فیصد جڑی بوٹیوں کے بارے میں معلومات تھیں باقی مجھے علم ہی نہیں تھا۔
قائد تحریک منہاج القرآن اکثر فرماتے ہیں حضور قدوۃ الاولیاء علم کا سمندر تھے۔ میں تو ایک قطرہ ہوں وہ علم کے پہاڑ تھے۔ میں تو ایک ریزہ ہوں۔ یہ حضور قدوۃ الاولیاء کے علمی و روحانی فیضان کا ہی اثر ہے آج پورے عالم اسلام میں ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ایک اتھارٹی ہیں۔ اپنے تو اپنے غیر بھی ان کے علم کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں اور حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی حکمت و دانائی کا وہ فیض ہے کہ آج قائد تحریک منہاج القرآن نے دنیا کے سامنے جس انداز میں اسلام کی تعلیمات کو پیش کیا ہے پوری دنیا میں تعلیم و تحقیق کے میدان میں انسانی بھائی چارے اور فلاح و امن کے لئے جو کام کیا ہے۔ شیخ الاسلام کی ان خوبیوں، صلاحیتوں اور بھرپور کام کو سراہتے ہوئے عالم مغرب اور امریکہ جیسے ملک کے بڑے بڑے اداروں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کو مختلف ایوارڈز سے نوازا ہے۔
حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد آپ کے تینوں شہزادے حضرت پیر السید محمود محی الدین الگیلانی، حضرت پیرالسید عبدالقادر جمال الدین الگیلانی، حضرت پیر السید محمد ضیاء الدین الگیلانی اپنے بابا کی سنت پر عمل کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے بڑے بڑے پروگرامز میں تشریف لاتے ہیں اور صدارت و سرپرستی فرماتے ہیں۔ شہزادگان حضور قدوۃ الاولیاء کا قائد تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے ساتھ روحانی، قلبی اور حبی تعلق ہے۔
خانوادے غوثیت مآب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریک منہاج القرآن پر مہربانیاں، نوازشات اور کرم نوازیاں کس قدر ہیں؟ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ 26 دسمبر 2006ء کو حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے بڑے بھائی محترم المقام السید احمد ظفر الگیلانی جو اس وقت بغداد شریف میں حضور غوث پاک کے دربار شریف کے گدی نشین ہیں۔ پاکستان (کراچی) تشریف لائے۔ اس دوران قائد محترم بیرون ملک تھے۔ آپ کے پرنسپل سیکرٹری جی ایم ملک صاحب نے بذریعہ فون فوری طور پر قائد محترم کو آپ کی آمد کے متعلق عرض کیا تو قائد محترم نے اسی وقت حضور کو فون کرکے لاہور منہاج القرآن میں قدم رنجہ فرمانے کی درخواست کی تو انہوں نے ضعیف العمری اور علالت طبع کے باوجود خصوصی شفقت فرماتے ہوئے اس درخواست کو قبول فرمایا۔
26 دسمبر 2006ء کو 9:30 بجے آپ لاہور تشریف لائے۔ سب سے پہلے آپ حضور قدوۃ الاولیاء کے مزار اقدس پر تشریف لے گئے۔ دربار شریف حاضری کے بعد حضور شیخ الاسلام کے گھر تشریف لے گئے 12:30 بجے کی فلائٹ سے حضور قدوۃ الاولیاء کے سب سے چھوٹے شہزادے حضرت پیر السید محمد ضیاء الدین الگیلانی القادری مدظلہ العالی بھی لاہور تشریف لے آئے اور شہزاد ہ حضور بھی ایئر پورٹ سے سیدھے قائد محترم کے گھر تشریف لائے۔
آج چشم فلک یہ منظر دیکھ رہی تھی کہ منہاج القرآن کے مرکز پر خانوادہ غوثیہ کے عظیم چشم و چراغ اور گلستان غوث الوریٰ کے دو مہکتے پھول تشریف فرما تھے۔ آج پھر حضور قدوۃ الاولیاء کی یاد آرہی تھی آنکھیں اشک بار تھیں۔ آج پھر مرکز منہاج القرآن پر فیوضات غوثیہ کی بارش ہورہی تھی۔ تحریک منہاج القرآن کے وابستگان اور محبان غوث الوریٰ کو سرکار بغداد کا فیض تقسیم کرنے کے لئے میخانہ بغداد کے ساقی تشریف فرما تھے۔
حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح اپنی ظاہری حیات میں تحریک منہاج القرآن کی سرپرستی فرمائی اور بعد از وصال بھی آپ نے تحریک منہاج القرآن ہی کے عظیم روحانی و تربیتی مرکز (جامع المنہاج) کو اپنا مسکن بنایا اور آرام فرما ہوکر اس سلسلۂ فیض اور سرپرستی کو قائم رکھا۔ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ کو اس دنیا سے ظاہری طور پر پردہ فرمائے ہوئے کم و بیش 16 سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آپ کی روحانی اور باطنی سرپرستی اسی طرح جاری ہے اور ہر آنے والا دن تحریک منہاج القرآن کے لئے خوشخبریاں، شادمانیاں اور کامرانیاں لیکر آرہا ہے۔ حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ نے جس پودے کو لگایا تھا اب وہ ایک تن آور درخت بن چکا ہے۔ جس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیل چکی ہیں اور ان کے منظور نظر اور مرید خاص اور خانوادہ غوث الوریٰ کے فیض یافتہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ عظیم مشن (منہاج القرآن) کے لئے اپنی علمی، عملی، روحانی، جسمانی اور مالی قوتیں بروئے کار لاتے ہوئے دین اسلام اور انسانیت کی بے مثال خدمت کررہے ہیں۔
اگر کسی نے حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے فیضان کو عملی شکل میں دیکھنا ہے تو تحریک منہاج القرآن کے عظیم روحانی و تربیتی مرکز پر ماہ رمضان کے آخری عشرے میں آپ کے قدموں میں آباد ہونے والی آنسوؤں اور توبہ کی بستی یعنی شہر اعتکاف میں آئے جہاں پوری دنیا سے ہزارہا کی تعداد میں فرزندان اسلام اور دختران اسلام دس دنوں کے لئے معتکف ہوتے ہیں اور حضور قدوۃ الاولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے زیر سایہ آپ کے فیض یافتہ مرید خاص شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خصوصی دراسات قرآن و حدیث اور تصوف ہوتے ہیں۔ دس روز یہاں پر دن رات تجلیات انوار الہٰیہ کی بارش ہورہی ہوتی ہے۔ مکین گنبد خضریٰ کی خصوصی توجہات اور پیران پیر کی نگاہ کرم سے ویران دلوں کی اجڑی بستیاں آباد ہوتی ہیں۔ محبت الہٰی اور خشیت الہٰی سے دلوں کے میل دھوئے جاتے ہیں۔ عشق سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شمع سے دلوں کے بجھے چراغ جلائے جاتے ہیں۔ فیضان غوثیت مآب کے جام پلائے جاتے ہیں۔ ستائیسویں شب لاکھوں لوگ یہاں پر آتے ہیں عشق الہٰی، عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت غوث الوریٰ کے بہتے ہوئے سمندر سے اپنی دلوں کی پیاس کو بجھاتے ہیں اور جھولیاں بھر کر لوٹتے ہیں۔
1987ء میں جب حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے یورپ اور کویت کا کامیاب دورہ کیا تو مخالفین بلبلا اٹھے اور انہوں نے تحریک منہاج القرآن کی عالمی سطح پر اٹھان کو دیکھ کر معاندانہ پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ قائد محترم کی ذات اور تحریک منہاج القرآن کے متعلق بہت سی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی حتی کہ سلسلہ قادریہ کے بہت سے وابستگان بھی اس پروپیگنڈہ کی رو میں بہہ گئے تو حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کرم دیکھیں کہ آپ نے پاکستان میں موجود سلسلہ قادریہ کے وابستگان اور علماء ومشائخ کے نام ایک پیغام جاری کیا جس میں آپ نے ادارہ منہاج القرآن کے کام پر اطمینان کا اظہار کیا اور علماء ومشائخ سلسلہ قادریہ کے وابستگان کو آپس میں محبت کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی۔
یہ تحریک منہاج القرآن پر شیخ المشائخ کا کتنا بڑا کرم تھا کہ آپ باطنی اور روحانی طور پر بھی بانی تحریک کو نوازتے رہے اور ظاہری طور پر بھی تحریک منہاج القرآن اور بانی تحریک کی دلجوئی اور سرپرستی فرماتے تھے۔ اس چیز کا اندازہ آپ کی طرف سے علماء و مشائخ کے نام پیغام کی صورت میں اس خط سے بخوبی مترشح ہوتا ہے۔
’’کافی حضرات پاکستان میں ہم سے مرید ہوئے اور خلافت پائی اور جو مرید بنائے اور جن کو خلافت عطا کی گئی ہے وہ تقویٰ، طہارت اور مسلمانوں کے درمیان اصلاح کے لئے ہے چنانچہ ہم لوگوں نے امام ابوحنیفہ امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کی جو کہ ہم سب حنفیوں کے امام ہیں اور مجھے افسوس ہے کہ ایک مسلک، ایک مکتبہ فکر اور بھائی بھائی کے اوپر تکفیر اور کفر کے فتوے لگارہا ہے۔ چنانچہ میں تمام علماء اور مشائخ سے کہوں گا کہ وہ اسلام کی ظاہرو باطن سے خدمت کریں اور تقویٰ اختیار کریں اور دل کو حسد اور کینہ سے پاک کریں بغض اور منافرت اور اپنے پیر بھائیوں کے درمیان منافرت اور مشائخ عظام پر کیچڑ اچھالنا علماء کی تکفیر کرنا مسلک کے لئے نقصان دہ ہے۔ ہر انسان کے اندر خوبی اور خامی موجود ہے۔ خداوند تعالیٰ ہر انسان کو کفر اور بدی سے بچائے۔ تحقیق اور اجتہاد اور فتویٰ کے لئے کبھی موافقت اورکبھی مخالفت ہے۔ عالم اور محقق اگر اس میں خطا کرے تو اسے ایک ثواب مل جاتا ہے اور اگر درست کیا تو اسے دو ثواب ملیں گے۔ ادارہ منہاج القرآن کے کام سے ہم بہت مطمئن ہیں۔ یہ طریقہ قادریہ اور مذہب اسلام کی عالمگیر سطح پر خدمت کررہا ہے۔ اس کی خدمات سے سلسلۂ قادریہ اور اسلام کو فائدہ ہے اس پر کیچڑ اچھالنا اور اس کے اوپر تکفیر کرنا سخت ناگوار اور نقصان دہ کوشش ہے۔ ہر کسے باشد جو بھی اس ادارہ کو نقصان پہنچا رہا ہے وہ خود کو طریقہ قادریہ پر نہ سمجھے اور یہ بھی نہ خیال کرے کہ وہ اسلام کی کوئی خدمت کررہا ہے بلکہ مذہب کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے۔
چنانچہ تمام علماء کرام، مشائخ عظام اور سنی حنفی برادران بالخصوص مریدان حضرت غوث الاعظم دستگیر سے التماس ہے کہ وہ دل کی گہرائیوں سے ادارہ منہاج القرآن سے وابستگی اختیار کریں اور اس کی خدمت کریں۔
حضور قدوۃ الاولیاء کی تحریک منہاج القرآن اور قائد تحریک پر جو نوازشات اور کرم نوازیاں ہیں راقم الحروف ان کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ مجھے ایڈیٹر ماہنامہ دختران اسلام علامہ صاحبزادہ محمد حسین آزاد الازہری کا حکم ہوا جس کی تعمیل میں ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں چند معروضات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ اور یہ سب حضور قدوۃ الاولیاء کے قدموں کی خیرات ہے حضور شہزادگان غوث الوریٰ کی شفقتوں اور حضور شیخ الاسلام کی خصوصی دعاؤں اور منہاج القرآن کے عظیم مشن کا فیض ہے۔ آخر میں دعا ہے۔
تجھ سے در در سے سگ، سگ سے ہے نسبت مجھ کو
میرے گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک رہے میرے گردن میں پٹہ تیرا
تبصرہ