حسد سے دوری اور دل کی صفائی انسان کو جنتی بنا دیتی ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
انسانی رشتوں میں محبت، اعتماد اور قربت کی بنیاد دل کی صفائی پر ہوتی ہے۔ جب دل میں حسد گھر کر جائے تو نہ صرف تعلقات میں دوری پیدا ہوتی ہے، بلکہ انسان اندر سے بھی کھوکھلا ہونے لگتا ہے۔ حاسد انسان دوسروں کو خوش دیکھ کر تکلیف محسوس کرتا ہے، جبکہ دل کی صفائی دوسروں کی کامیابی میں اپنی کامیابی کے راستہ دکھاتی ہے۔ یہی فرق انسان کے باطن اور اس کے تعلقات کو سنوارنے یا بگاڑنے کا باعث بنتا ہے۔
شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ایک روایت کے ذریعے حسد کے نقصانات، اور خیرخواہی اور ایثار و رِضا کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک موقع پر اپنے صحابہ سے فرمایا ابھی تمہاری مجلس میں ایک ایسا شخص آنے والا ہے جو جنتی ہے، میں اس کے جنتی ہونے کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ جب ہم نے یہ بات سنی تو ہر کسی کی نگاہ دروازے کی طرف لگ گئی۔ ایک شخص داخل ہوا جو بالکل سادہ لباس میں ملبوس تھا، اور اُس نے اپنے جوتے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے۔ ہم سب اُس کی طرف دیکھنے لگے۔ آقائے کائنات ﷺ نے فرمایا اِسے دیکھ لو، یہ جنتی ہے۔ اگلے روز پھر مجلس لگی اور آقا ﷺ نے فرمایا ابھی ایک شخص تمہاری مجلس میں آ رہا ہے اور وہ جنتی ہے۔ سب تیار ہو جاؤ جنتی شخص کو دیکھنے کے لیے۔ صحابہ کرامؓ انتظار کرنے لگے تاکہ یہ دیکھ سکیں کہ آج کس خوش نصیب کو یہ خوشخبری مل رہی ہے۔ درواہ کھُلا اور وہی شخص پھر اندر آ گیا، سب اُس کو تکتے رہے اور پھر مجلس برخاست ہو گئی۔ تیسرے دن ہم پھر حضور نبی اکرم ﷺ کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے، آقا ﷺ نے وہی کلمات پھر دہرائے کہ ابھی اِسی لمحے ایک جنتی داخل ہونے والا ہے، عین اُسی لمحے دروازہ کھُلا اور وہی شخص داخل ہو گیا جو پہلے دو دنوں میں داخل ہو چکا تھا۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں بڑا شوق ہوا کہ جانوں کہ اس شخص کے پاس ایسا کونسا عمل جس نے اس کو جنتی بنا دیا ہے؟ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اُس کو کہا کہ میری آرزو ہے کہ میں آپ کے ساتھ تین دن اور تین راتیں آپ کے گھر میں گزاروں۔ اس نے اجازت دی اور حضرت عبد اللہ بن عمروؓ اس کے ساتھ چلے گئے۔ اس کو معمول دیکھا کہ وہ نماز عشاء پڑھ کے سوتا اور جب وہ کروٹ لیتا تو اللہ اکبر کہہ دیتا، سو کر پھر جب نماز فجر کے لیے اُٹھتا تو اور باقی معمولات شروع کر دیتا۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں نے اُس کی کوئی اضافی عبادت نہیں دیکھی، کوئی غیرمعمولی عمل نہیں دیکھا، غی معمولی طاعت اور عبادت نہیں دیکھی۔ جب تین راتوں کا اُس کا معمول دیکھا تو مجھے اپنی کوششیں بھی یاد آئیں جو ہم عبادت و ریاضت کرتے ہیں، اور اُس کا عمل اپنے اعمال کے مقابلے میں ہلکا دکھائی دینے لگا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ اے شخص! میں نے تو تمہارے پاس تین دن اور تین راتوں کا قیام اس لیے کیا تھا کہ مجھے اُس عمل کا پتا چلے جس نے تجھے جنتی بنا دیا ہے، اور زبانِ مصطفی ﷺ سے تمہارے جنتی ہونے کا تین دن اعلان ہوتا رہا ہے، مگر مجھے تو کوئی غیرمعمولی چیز کچھ بھی نظر نہیں آئی، مجھے بتاؤ وہ عمل کیا ہے جس نے تجھے اس مرتبہ تک پہنچایا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ میرے پاس اور تو کچھ زیادہ عبادات نہیں ہیں، سوائے اس کے جو کچھ تم نے ملاحظہ کر لیا ہے۔ صرف ایک چیز میری ایسی ہے جسے میں اپنی خوبی گردانتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ میں حلفًا کہتا ہوں کہ میرے دل میں اس پورے معاشرے کے کسی فرد کا نہ حسد ہے اور نہ اپنے دل میں کسی کے لیے میل رکھتا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ یہی وہ عمل ہے جس نے اس شخص کو زبانِ مصطفی ﷺ سے جنت کی بشارت کا حقدار بنا دیا۔
شیخ الاسلام نے اس واقعہ سے استباط کرتے ہوئے کہا کہ جنت کے اعلیٰ مقام تک پہنچنے کے لیے ضروری نہیں کہ انسان ظاہری طور پر کثرتِ عبادات میں مشغول ہو، بلکہ اصل اہمیت دل کی صفائی اور باطنی طہارت کو حاصل ہے۔ حسد، بغض اور کینہ جیسے روحانی اَمراض دل کو گندا کر دیتے ہیں اور بندے کو اللہ کی قربت سے دور کر دیتے ہیں، جب کہ دوسروں کے لیے خیر خواہی، دل کی وسعت، اور حسد سے پاک زندگی انسان کو وہ مقام عطا کر سکتی ہے جو بظاہر بڑی عبادات سے بھی حاصل نہ ہو۔ یہی وہ خالص نیت اور قلبی پاکیزگی ہے جس نے اُس صحابی کو "جنتی" ہونے کا عظیم اعزاز دلوایا۔ ایمان کی اصل روح صرف عمل نہیں بلکہ نیت، دل کا حال اور دوسروں کے لیے محبت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسد سے دوری اور دل کی صفائی انسان کو جنتی بنا دیتی ہے۔
تبصرہ