طبیعت میں صبر، درگزر اور احسان کا جذبہ ہی حقیقی تقویٰ کی علامت ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
تحریر: محمد اقبال چشتی (ریسرچ رسکالر - لائیو اپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)
ایک مسلمان کا روّیہ؛ ایمان کا عملی اظہار
رویہ (Attitude) صرف ایک جذباتی یا ذہنی کیفیت نہیں بلکہ ایمان، اعتقاد، اور اسلامی تعلیمات سے جُڑا ہوا ایک عملی کردار ہے۔ ایک مسلمان کا رویہ اس کی سوچ، نیت، اور اعمال سے ظاہر ہوتا ہے—خواہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہو، رسول اکرم ﷺ کے ساتھ محبت، انسانوں کے ساتھ برتاؤ یا دنیاوی معاملات میں اس کا طرزِ عمل۔ اسلامی تعلیمات انسان کو ایسا رویہ اپنانے کی دعوت دیتی ہیں جو صبر، شکر، عدل، احسان اور عفو پر مبنی ہو، تاکہ فرد اپنے نفس کا تزکیہ کر کے اللہ تعالیٰ کی رضا پا سکے۔ یہ وہ اوصاف ہیں جو نہ صرف فرد کے اندر روحانی بلندی پیدا کرتے ہیں بلکہ پورے معاشرے میں بھلائی، رحم، اور عدل کی فضا قائم کرتے ہیں۔
تقویٰ کیلئے مقصود روّیہ:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں قرآن مجید کی اس آیت (آل عمران: 134) کا حوالہ دیا جس میں متّقین کی ایک نشانی بیان کی گئی ہے کہ ’متقین غصے کو پی جاتے ہیں"۔ انہوں نے کہا کہ قرآن مجید نے غصہ پی جانے کو متقین کے رویے کا حصہ قرار دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے تقویٰ کو ظاہری علامات جیسے لباس، داڑھی، دستار اور ظاہری رعب و دبدبہ سے جوڑ دیا ہے، جبکہ قرآن کی رو سے اصل تقویٰ وہ ہے جو انسان کو باطنی طور پر عاجز، رحم دل، اور دوسروں کا خیر خواہ بناتا ہے۔
متقین کے اوصاف:
شیخ الاسلام نے واضح کیا کہ قرآنِ مجید ہمیں بتاتا ہے کہ متقین نہ صرف اعلانیہ بلکہ خفیہ طور پر بھی ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ غصے کو پی جاتے ہیں، یعنی وہ غصے کے جذبات کو محسوس ضرور کرتے ہیں مگر اُن پر قابو پاتے ہیں۔ وہ لوگوں کو معاف کرتے ہیں، چاہے ان سے زیادتی ہی کیوں نہ ہوئی ہو۔ اور وہ احسان کرتے ہیں، یہاں تک کہ اللہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے۔ شیخ الاسلام نے فرمایا کہ جب کوئی شخص غصے جیسے شدید فطری جذبے پر قابو پاتا ہے اور معافی و احسان کو ترجیح دیتا ہے، تو یہی اس کے باطن میں موجود تقویٰ کی سب سے واضح علامت ہوتی ہے۔
فطری جذبات اور تزکیۂ نفس:
شیخ الاسلام نے ایک اہم نکتہ واضح کیا کہ قرآنِ مجید یہ نہیں کہتا کہ متّقین کو غصہ آتا ہی نہیں۔ غصہ آنا ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ مگر متقی شخص وہ ہے جو غصے کو اپنے نفس پر غالب نہیں آنے دیتا بلکہ اُسے "پی جاتا ہے"۔ جیسے پانی پینے سے دل کو ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے، ایسے ہی غصے کو پی جانے میں ایک روحانی سکون اور لذت ہوتی ہے—جو صرف اہلِ تقویٰ ہی محسوس کرتے ہیں۔
كَظْم الغَيْظ کا عملی نمونہ:
شیخ الاسلام نے امام جعفر الصادقؒ کے فرزند حضرت امام موسیٰ الکاظمؑ کا ذکر فرمایا، جن کا لقب ہی "الکاظم" یعنی غصے کو پی جانے والے تھا۔ یہ لقب ان کی اس عظیم صفت کا مظہر تھا کہ وہ شدید ترین اشتعال میں بھی برداشت، صبر، اور معافی کا پیکر بنے رہتے۔
تقویٰ ایک عملی روحانی سفر
آخر میں شیخ الاسلام نے کہا کہ جب کسی کے مَن میں ساری خیر آ جائے، یعنی جو اُس کے ساتھ بھلائی کرے اُس سے بھی اور جو اُس کے ساتھ برائی کرے اُس سے بھی بھلائی کرے، تو ایسے شخص سے نیکی کے چشمے پھوٹتے ہیں۔ اسلامی رویہ صرف ظاہری وضع قطع سے نہیں بلکہ باطنی کیفیت، عملی کردار، اور دوسروں سے حسن سلوک سے ظاہر ہوتا ہے۔ اصل تقویٰ وہی ہے جو انسان کو غصے، انتقام، اور ریا سے نکال کر صبر، عفو، اور احسان کی راہ پر گامزن کر دے۔
تبصرہ