یزید کا نام لے کر لعنت کرنے کے جواز پر اَئمہ اَربعہ کا اِجماع ہے: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے بھی یزید پر لعنت کے مسئلہ میں سکوت ثابت نہیں ہے اور نہ ہی یزید پر لعنت کی ممانعت ثابت ہے: شیخ الاسلام

امام اعظم ابو حنیفہؓ سے متعلق یہ بات کہ انہوں نے یزید پر لعنت کے معاملے میں سکوت اختیار کیا، محض ایک مَن گھڑت مغالطہ ہے جس کی نہ کوئی تاریخی بنیاد ہے اور نہ علمی روایت۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے صراحت کے ساتھ واضح کیا کہ بارہ صدیوں کی تاریخ میں امام ابو حنیفہؓ کا یزید پر لعنت سے سکوت کا کوئی قول مَروی ہی نہیں، بلکہ برعکس امام الکیا الہراسی جیسے معتبر فقیہ نے امام ابو حنیفہؓ سے یزید پر لعنت کے دو اقوال نقل کیے ہیں: ایک تلویحاً (اشارۃً) اور دوسرا تصریحاً (بالتعیین یعنی نام لے کر)، اور ان اقوال کی کسی بھی امام یا محدث نے نفی نہیں کی۔ یہی نہیں، بلکہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبلؒ سے بھی یزید پر لعنت کے جواز میں صریح اقوال موجود ہیں، جن سے یہ حقیقت ثابت ہو جاتی ہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک یزید پر لعنت صراحتاً یا اشارتاً جائز ہے، اور کسی ایک امام سے نہ سکوت ثابت ہے اور نہ ہی یزید پر لعنت کی ممانعت۔ لہٰذا امام اعظم سے سکوت یا منع کی نسبت غیر ثابت، غیر مسلم اور علمی و تاریخی لحاظ سے غلط ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہؓ کے متعلق پھیلائے گئے مغالطہ کا ازالہ

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ: بعض لوگ یہ مغالطہ پھیلاتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے یزید پر لعنت کرنے میں سکوت اختیار کیا ہے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا قول یزید پر لعنت بھیجنے کے متعلق 12 سو سال کی تاریخ میں سِرے سے مَروی ہی نہیں ہے۔ امام ابو حنیفہؓ سے سکوت کا قول ثابت ہی نہیں ہے۔ تمام ائمۂ فقہ، محدثین و مفسرین میں سے کسی نے 12 صدیوں میں یہ بات نقل ہی نہیں کی کہ امام ابو حنفیہؓ نے یزید پر لعنت کے معاملے سکوت اختیار کیا ہو۔ لہذا اس مغالطے کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔

امام اَعظم ابو حنیفہؓ کا یزید پر جوازِ لعنت کا قول

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا کہ امام ابو حنیفہؓ کا یزید پر لعنت کرنے کے متعلق مجھے ایک قول ملا ہے اور اس قول کی نفی کسی بھی امام نے نہیں کی۔

امام عماد الدین ابو الحسن علی بن محمد بن علی الطبری البغدادی الکیا الہراسی سے یزید بن معاویہ کے بارے میں پوچھا گیا کہ:

هَلْ هُوَ مِنَ الصَّحَابَةِ؟ وَهَلْ يَجُوْزُ لَعْنُهُ؟‏

’’کیا یزید صحابی تھا اور کیا اس پر لعنت کرنا جائز ہے؟‘‘

امام الکیا الہراسی نے جواب دیا:

إِنَّهُ لَمْ يَكُنْ مِنَ الصَّحَابَةِ لِأَنَّهُ وُلِدَ فِي أَيَّامِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.

وہ صحابہ میں سے نہیں تھا کیوں کہ وہ حضرت عمر بن الخطاب کے دور میں پیدا ہوا۔

رہی بات اُس (پر لعن) کے بارے میں اسلاف کے اَقوال کی، تو اس حوالے سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ سے دو قول ہیں:

تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ

ایک قول کے مطابق یزید پر اِشارتاً لعنت بھیجنا جائز ہے اور آپ ہی کے دوسرے قول کے مطابق صراحتاً یعنی بالتعیین یزید کا نام لے کر اُس پر لعنت بھیجنا جائز ہے۔

(ابن خلكان، وفيات الأعيان وأنباء أبناء الزمان، 3/287، والكتبي، فوات الوفيات، 2/641، وابن الوزير، العواصم والقواصم، الذب عن سنة أبي القاسم ، 8/39-40، وأيضا في الروض الباسم في الذب عن سنة أبي القاسم، 2/398-399، والحلبي، إنسان العيون في سيرة النبي المأمون، 1/266-267، وابن العماد، شذرات الذهب، 4/8-9)

تصریحًا اور تلویحًا سے مراد کیا ہے

تصریحا سے مراد یہ ہے کہ یزید کا بالتعیین نام لے کر اُس پر صراحتاً لعنت کی جائے، یہ جائز ہے۔

تلویحاً سے مراد یہ ہے کہ یزید کا نام لیے بغیر اُس کے کرتوتوں کا ذکر کر کے اِشارتاً اُسی پر لعنت کی جائے یعنی اِس طرح کہا جائے کہ جس جس بدبخت نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کروایا یا اُن کے قتل سے راضی ہوا یا اُن کے قتل میں معاونت کی، ان سب لوگوں پر لعنت ہے۔

ائمہ اربعہ کے یزید پر لعنت کے جواز میں اقوال

امام الکیا الہراسی ائمہ اربعہ کے یزید پر لعنت کے اقوال نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

وَلِأَبِي حَنِيْفَةَ قَوْلَانِ: تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ

(یزید پر لعن کے جواز میں) امام ابو حنیفہ کے دوقول ہیں: ایک قول کے مطابق یزید پر اِشارتًا لعنت بھیجنا جائز ہے اور آپ ہی کے دوسرے قول کے مطابق یزید کا نام لے کر صراحتًا اُس پر لعنت بھیجنا جائز ہے۔

امام مالک کا یزید پر جوازِ لعنت کا قول

امام الکیا الہراسی نے بیان کیا ہے:

وَلِمَالِكٍ قَوْلَانِ: تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ

(یزید پر لعن کے جواز میں) امام مالک کے دوقول ہیں: ایک قول کے مطابق یزید پر اِشارتاً لعنت بھیجنا جائز ہے اور آپ ہی کے دوسرے قول کے مطابق یزید کا نام لے کر صراحتاً اُس پر لعنت بھیجنا جائز ہے۔

امام شافعی کا یزید پر جوازِ لعنت کا قول

امام الکیا الہراسی نے بیان کیا ہے:

 وَلَنَا قَوْلٌ وَاحِدٌ: اَلتَّصْرِيْحُ دُوْنَ التَّلْوِيْحِ

(یزید پر لعنت کے جواز میں) ہمارا (یعنی شوافع کا) ایک ہی قول ہے، اور وہ یہ کہ ’اُس پر صراحتاً لعنت کی جائے نہ کہ کنایتاً (یعنی بالتعیین اُس کا نام لے کر لعنت کی جائے۔ کیوں کہ وہ اسی کا مستحق ہے۔ اگر اس پر اشارتا لعنت کی جائے تو گویا اس کی ملعونیت کے اظہار کا حق ادا نہیں ہو گا)۔

امام احمد بن حنبل کا یزید پر جوازِ لعنت کا قول

امام الکیا الہراسی نے بیان کیا ہے:

ولِأَحْمَدَ قَوْلَانِ: تَلْوِيْحٌ وَتَصْرِيْحٌ

(یزید پر لعن کے جواز کے حوالے سے) امام احمد بن حنبل کے دو قول ہیں: ایک قول کے مطابق اُس پر اِشارتاً لعنت کرنا جائز ہے اور دوسرے قول کے مطابق صراحتاً یعنی بالتعیین یزید کا نام لے کر اُس پر لعنت کرنا جائز ہے۔

یزید پر بالتعیین نام لے کر صراحتاً لعنت کرنے کےجواز پر اَئمہ کا اِجماع ہے

مذکورہ بالا عبارات اور تصریحات سے ثابت ہو گیا کہ اَئمہ اربعہ (یعنی چاروں اَئمۂ فقہ) کا یزید پر لعنت کے جواز پر اِجماع ہے۔ صرف یہ کہ تین ائمہ سے دو دو قول مروی ہیں، بلا واسطہ لعنت اور بالواسطہ لعنت۔ جب کہ امام شافعی سے بلا واسطہ صراحتاً نام لے کر لعنت کرنے کا صرف ایک قول مروی ہے۔

مگر ایک بات بالتحقیق ثابت ہوگئی کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک امام سے یزید پر لعنت کے مسئلہ پر سکوت ثابت نہیں ہے اور نہ ہی منع ثابت ہے۔ کسی ایک امام کا نہ منع کا قول ہے اور نہ ہی سکوت کا۔

یزید پر لعنت کے باب میں امام اعظم ابو حنیفہؓ سے سکوت غیر ثابت، غیر مسلّم اور غلط ہے

یزید پر لعن کے جواز میں امام ابو حنیفہ کے دو اَقوال: تلویح وتصریح ہیں: یعنی ایک قول کے مطابق یزید پر اِشارتاً لعنت بھیجنا جائز ہے اور آپ ہی کے دوسرے قول کے مطابق یزید کا نام لے کر صراحتاً اُس پر لعنت بھیجنا جائز ہے۔
سو احناف کے لیے جائز ہے کہ دونوں اقوال میں سے جسے چاہیں اپنا لیں۔ کوئی حنفی عالم چاہے تو امام اعظم ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق یزید پر اشارتاً لعنت بھیجنے کو جائز سمجھے، درست ہوگا۔ کوئی چاہے تو امام اعظم ہی کے مذہب کے مطابق یزید پر تصریحاً نام لے کر لعنت بھیجنا جائز سمجھے، یہ بھی درست ہوگا۔ دونوں صورتوں میں وہ امام اعظم ابو حنیفہ کے مذہب پر ہی عمل کر رہا ہوگا۔ دونوں صورتیں امام اعظم سے ثابت ہیں اور باقی دو صورتیں دور دور تک امام اعظم سے کہیں ثابت نہیں۔ نہ کہیں نقل ہوئیں، نہ کہیں مروی ہیں، یعنی یزید پر لعنت سے منع کیا جائے یا یزید پر لعنت کے باب میں سکوت اختیار کیا جائے۔ گویا نہ امام اعظم سے یزید پر لعنت کے باب ميں کہیں منع ثابت ہے، اور نہ یزید پر لعنت کے باب میں امام اعظم سے سکوت ثابت ہے۔ آخری دو چیزوں میں سے اگر کوئی امر بھی اُن کی طرف منسوب کیا جائے گا تو یہ غیر ثابت، غیر مسلّم، ناجائز اور غلط ہوگا۔

حاصلِ کلام

امام اعظم ابو حنیفہؓ کے حوالے سے یہ گمان کہ انہوں نے یزید پر لعنت کے مسئلہ میں سکوت اختیار کیا، سراسر بے بنیاد اور تاریخی و فقہی شہادتوں سے عاری ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تحقیقی بیان کی روشنی میں یہ اَمر روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ نہ صرف امام ابو حنیفہؓ سے لعنتِ یزید پر سکوت کا کوئی معتبر قول منقول ہے، نہ ہی کسی محدث یا فقیہ نے بارہ صدیوں میں ایسی کوئی نسبت ان کی طرف کی ہے۔ اس کے برعکس، معتبر ائمہ و مصادر کی رو سے امام ابو حنیفہؓ سے یزید پر لعنت کے باب میں دو صریح اقوال ثابت ہیں: ایک تلویحاً یعنی اشارتاً، اور دوسرا تصریحاً یعنی نام لے کر۔ یہی طرزِ استدلال امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبلؒ کے اقوال میں بھی موجود ہے، جس سے یہ مسلّمہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ ائمہ اربعہ کا یزید پر لعنت کے جواز پر اصولی اتفاق پایا جاتا ہے۔ لہٰذا امام اعظم سے سکوت یا منع کی نسبت، علمی دیانت و امانت کے منافی اور صریحاً غلط ہے۔ حنفی مذہب کے پیروکار دونوں اقوال میں سے کسی کو بھی اختیار کر کے اپنے امام کی متبعیت میں رہ سکتے ہیں، جبکہ ان کے برعکس سکوت یا منع کی طرف انتساب علمی افتراء اور خلافِ تحقیق ہوگا۔

بلاگ: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، لائیو اَپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top