یزید کے دورِ حکومت میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرّمہ کی بے حُرمتی ہوئی: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادی

یزید بد بخت نے اپنے جابرانہ اِقتدار کے پہلے سال امام حسین علیہ السلام اور خانوادۂ نبوت کو شہید کیا۔ دوسرے سال مدینہ منورہ کو تاخت و تاراج کیا اور تیسرے سال مکہ معظّمہ پہ حملہ کیا: شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

شہادتِ سیدنا امام حسین علیہ السلام کے بعد اسلامی تاریخ کا منظر نامہ ظلم، جبر اور فتنہ و فساد سے اس قدر آلودہ ہو گیا کہ حرمتوں کے نگہبان شہروں پر یلغار ہونے لگی اور مرکزِ ایمان، مدینۃ النبی ﷺ کی پاک سرزمین تاخت و تاراج کا میدان بن گئی۔ یزید بن معاویہ کا اقتدار دراصل فسق و فجور، ظلم و استبداد اور بے حسی و شقاوت کا وہ سیاہ دور ہے جس میں نہ صرف خانوادۂ نبوت کا خونِ ناحق بہایا گیا بلکہ روضۂ رسول ﷺ کی حرمت بھی پامال کی گئی۔ وہ فتنہ پرور شخص جس نے مکہ مکرمہ پر سنگ باری کی، مدینہ منورہ کو تین دن کے لیے مباح قرار دیا اور مسجدِ نبوی میں اذان و نماز تک موقوف کر دی۔ یزید کی بداَعمالیاں محض ظلم نہیں بلکہ روحِ اسلام کی توہین تھیں، جن کا دفاع محض گمراہی نہیں بلکہ ایمان کے زوال کی علامت ہے۔

شہادتِ امام حسین علیہ السلام کے بعد اہلِ مدینہ کا احتجاج کرنا

کرۂ اَرضی کے مقدس ترین مقامات ’حرمین شریفین‘ کے مکینوں کا قتلِ عام تو دور کی بات ہے، ایک بندۂ مومن کبھی ان کی بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایسا قبیح و شنیع فعل ایسے شقی القلب اور بدبخت سے ہی صادر ہو سکتا ہے جو جادۂ حق سے بھٹک کر دولتِ ایمان سے محروم ہو چکا ہو۔

یزید بد بخت نے اپنے جابرانہ اِقتدار کے پہلے سال امام حسین علیہ السلام اور خانوادۂ نبوت کو شہید کیا۔ دوسرے سال مدینہ منورہ کو تاخت و تاراج کیا اور تیسرے سال مکہ معظمہ پہ حملہ کیا اور منجنیقوں کے ذریعے کعبۃ اللہ پر سنگ باری کر کے اس کے اِحراق و اِنہدام کے فعلِ قبیح کا مرتکب ہوا۔

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں کہا کہ: واقعۂ کربلا کے بعد جب یزید نے اپنی افواج بھیج کر مدینہ طیبہ کو تاخت و تاراج کر دیا۔ نہ صرف مدینہ منورہ پر قبضہ کیا بلکہ مسجدِ نبوی پر قبضہ کر لیا اور اپنے گھوڑے، خچر اور اونٹ مسجدِ نبوی میں باندھ دیئے اور سرکارِ دو عالم ﷺ کے روضۂ انور کے تقدس و اِحترام کو پامال کیا۔ اس پر اہلِ مدینہ نے احتجاج کیا۔ شیخ الاسلام کا کہنا تھا کہ: اس واقعہ پر مؤرخین و محدثین میں سے کسی ایک امام کا بھی اس واقعہ سے متعلق اختلاف نہیں ہے۔

یزیدی اَفواج کا مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونا

اَہلِ مدینہ اور یزیدی فوج کے مابین مقامِ حرّۃ پر مقابلہ ہوا۔ اِس لیے اِس سانحہ کو ’’واقعۂ حرّہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ صالح بن کَیسان روایت کرتے ہیں:

لَمَّا أَقْبَلَ مُسْلِمُ بْنُ عُقْبَةَ مِنَ الشَّامِ مَرَّ بِأَسْفَلِ الْمَدِيْنَةِ، فَقَالَ: أَنْزِلُوْنِي مَنْزِلًا إِذَا حَارَبْتُ الْقَوْمَ اسْتَدْبَرَتْنِي الشَّمْسُ وَاسْتَقْبَلَتْهُمْ، فَنَزَلَ بِحَرَّةَ وَاقِمٍ شَرْقِيَّ الْمَدِيْنَةِ.

بلاذري، أنساب الأشراف، جلد 5، ص333، الرقم/861.

’’جب (یزید کا بھیجا ہوا نمائندہ) مسلم بن عقبہ اپنے شامی لشکر کے ساتھ مدینہ منورہ پہنچا، اس نے اپنے لشکریوں کو حکم دیا کہ ایسی جگہ اور اِس انداز سے پڑاؤ ڈالا جائے کہ طلوعِ آفتاب میرے عقب سے ہو اور اَہلِ مدینہ کے عین مقابل ہو، تاکہ مقابلے کے وقت سورج کی کرنیں اَہلِ مدینہ کی آنکھوں کو چندھیا دیں۔ اس لیے انہوں نے مدینہ منورہ کی مشرقی جانب حرّۂ واقم کے مقام پر پڑاؤ کیا۔‘‘

مسجدِ نبوی میں آذان، نماز اور جماعت کا معطّل ہونا

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنے خطاب میں یزید کی سیاہ کاریوں کے متعلق کہا کہ: جب یزید نے اپنی افواج بھیج کر مدینہ طیبہ پر قبضہ کر لیا اور مسجدِ نبوی پر قبضہ کر لیا تو تین دن تک مسجدِ نبوی میں آذان، نماز اور جماعت کا تعطّل رہا۔

اس واقعہ کو امام دارمی حضرت سعید بن عبد العزیز سے روایت کرتے ہیں:

لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ ثَلَاثًا وَلَمْ يُقَمْ، وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ مِنَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ ﷺ.

دارمي، السنن، باب ما أكرم الله تعالى نبيه ﷺ بعد موته، جلد 1، ص 56، الرقم/93، الخطيب التبريزي، مشكاة المصابيح، جلد 3، ص 1176، الرقم/5951، والقسطلاني، المواهب اللدنية، جلد 3، ص600۔

’’جب اَیام حرّہ کا سانحہ پیش آیا تو مسجدِ نبوی میں تین دن تک اذان اور اقامت نہیں کہی گئی اور حضرت سعید بن مسیب نے مسجد (نبوی) نہیں چھوڑی تھی۔ (وہ تین دن تک مسجدِ نبوی میں پناہ لیے رہے۔) انہیں نماز کا وقت معلوم نہیں ہوتا تھا، مگر ایک دھیمی سی آواز کے ذریعے انہیں اطلاع ہوجاتی جو وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی قبر انور سے سنتے تھے۔‘‘

یزید کا اپنی فوج کے لیے تین دن تک مدینہ منورہ کو مباح قرار دینا

شیخ الاسلام نے یزید ملعون کی سیاہ کاریوں سے پردہ اٹھاتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ جب یزید ملعون نے جب اپنی افواج مدینہ منورہ میں بھیجیں تو ساتھ ہی کہا کہ تین دن تک تم پر مدینہ منورہ مباح اور حلال ہے۔ تم جو چاہو کرو، لاشیں گرا دو، قتلِ عام کرو، عزتیں لوٹ لو، جو چاہو کرو۔ اِس واقعہ کو امام یعقوبی اپنی تاریخ میں حضرت سعید بن المسیب التابعی سے روایت کرتے ہیں کہ:

كَانَ سَعِيْدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ يُسَمِّي سَنِي يَزِيْدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بِالشُّؤْمِ، فِي السَّنَةِ الْأُوْلَى، قُتِلَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ وَأَهْلُ بَيْتِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، وَالثَّانِيَةِ: اسْتُبِيْحَ حَرَمُ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَانْتُهِكَتْ حُرْمَةُ الْمَدِيْنَةِ، وَالثَّالِثَةِ: سُفِكَتِ الدِّمَاءُ فِي حَرَمِ اللهِ وَحُرِقَتِ الْكَعْبَةُ.

يعقوبي، تاریخ یعقوبی، جلد 2، ص253.

’’حضرت سعید بن المسیب، یزید بن معاویہ کی حکومت کے سالوں کو بدشگونی (نحوست و بدی) کا نام دیتے تھے، کیونکہ اس کی حکومت کے پہلے سال امام حسین بن علی علیہ السلام اور رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کو شہید کیا گیا۔ دوسرے سال میں رسول اللہ ﷺ کےحرم پاک (مدینہ منورہ) کو مباح کیا گیا اور مدینہ منورہ کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ تیسرے سال اللہ تعالیٰ کے حرمِ (مکہ) میں خون بہایا گیا اور کعبۃ اللہ کو جلایا گیا۔‘‘

اس کے علاوہ اَہلِ مدینہ پر یزیدی اَفواج کے ظلم و بربریت کی دل خراش تفصیلات تابعی کبیر امام حسن بصری نے بیان کی ہیں جنہیں امام سیوطی نے ’تاریخ الخلفاء‘ میں نقل کیا ہے۔ امام حسن بصری نے واقعہ حرّہ سے متعلق فرمایا:

وَاللهِ، مَا كَادَ يَنْجُوْ مِنْهُمْ أَحَدٌ، قُتِلَ فِيْهَا خَلْقٌ مِنَ الصَّحَابَةِ رضی اللہ عنہم وَمِنْ غَيْرِهِمْ، وَنُهِبَتِ الْمَدِيْنَةُ، وَافْتُضَّ فِيْهَا أَلْفُ عَذْرَاءَ، فَإِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.

السيوطي في تاريخ الخلفاء، ص/209.

’’بخدا! قریب تھا کہ اہلِ مدینہ میں سے کوئی ایک فرد بھی زندہ نہ بچ پاتا۔ اس معرکے میں صحابہ اور ان کے علاوہ دیگر مسلمانوں کی بڑی تعداد شہید کر دی گئی۔ شہرِ رسول کو لوٹا گیا۔ (سفاکیت کی انتہا تھی کہ) ان (قیامت خیز) ایام میں (صحابہ و تابعین کی) ایک ہزار کنواری بیٹیوں، (پوتیوں اور نواسیوں) کی عصمت دری کی گئی۔

 إِنَّا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ۔‘‘

یزید کے سیاہ کارنامے اور اُس کی عبرتناک موت

یزید ملعون کے سیاہ کارنامے جن میں عدل کا گلا گھونٹا گیا۔ یزید کے عہد میں حرمتِ مدینہ پامال ہوئی، خانۂ کعبہ پر منجنیقیں برسائی گئیں، اور خانوادۂ رسول ﷺ کے پاکیزہ لہو سے کربلا کی ریت تر کی گئی۔ یزید نہ صرف اسلامی اقدار کا قاتل تھا بلکہ اُس کی بداعمالیاں قیامت تک ظلم کی علامت بن کر رہیں گی۔ یزید کے سیاہ کرتوتوں کی گواہی مختلف صحابہ وتابعین نے دی ہے۔حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے اور حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت منذر بن زبیر بن العوام فرماتے ہیں:

وَاللَّهِ، إِنَّهُ لَيَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَإِنَّهُ لَيَسْكَرُ حَتَّى يَدَعَ الصَّلَاةَ.

’’اللہ کی قسم! یزید شراب پیتا اور نشہ میں اِس قدر دُھت ہو جاتا ہے کہ نماز بھی ترک کر دیتا ہے۔‘‘

الطبري في تاريخ الأمم والملوك، جلد 3، ص350-351، وابن الجوزي في المنتظم، جلد 6، ص 7، وابن الأثير في الكامل، جلد 3، ص450، والسمهودي في وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى، جلد 1، ص103

شیخ الاسلام نے کہا کہ: یزید نے جب مدینہ منورہ کو تاخت و تاراج کیا اس کے بعد مکہ معظمہ پہ حملہ کیا اور منجنیقوں کے ذریعے کعبۃ اللہ پر سنگ باری کر کے اس کے اِحراق و اِنہدام کے فعلِ قبیح کا مرتکب ہوا۔ اس نے کعبۃ اللہ پر تیر برسائے اور کعبۃ اللہ کو آگ لگائی جس سے کعبۃ اللہ کا نہ صرف غلاف جلا بلکہ کعبۃ معظّمہ کا بہت سارا حصہ جَل گیا۔ جب کعبۃ اللہ جَل رہا تھا تو یزید دمشق سے تمام ہدایات دے رہا تھا۔ اِسی دوران اس کی فوج کا ایک کمانڈر مَر گیا اور اِس نے نیا کمانڈر متعیّن کیا۔ یہ کعبۃ اللہ کو جَلا رہا تھا اِسی دوران اِس کو تکلیف ہوئی اور یہ تڑپ تڑپ کر کعبۃ اللہ کے جلانے کے دوران مَر گیا۔

معروف تاریخ نگار امام بلاذُری ’كتاب جُمل من أنساب الأشراف‘ میں حضرت عبد اللہ بن عیاش کا قول نقل کرتے ہیں:

خَرَجَ يَزِيْدُ يَتَصَيَّدُ بِحُوَارَيْنِ وَهُوَ سَكْرَانُ، فَرَكِبَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ أَتَانٌ وَحْشِيَّةٌ قَدْ حَمَلَ عَلَيْهَا قِرْدًا وَجَعَلَ يُرَكِّضُ الْأَتَانَ وَيَقُوْلُ:

أَبَا خَلْفٍ احْتَلَّ لِنَفْسِكَ حِيْلَةً
فَلَيْسَ عَلَيْهَا إِنْ هَلَكْتَ ضَمَانُ

فَسَقَطَ، فَانْدَقَّتْ عُنُقُهُ.

بلاذري في كتاب جمل من أنساب الأشراف، جلد 5، ص287، الرقم/770.

’’یزید نشے کی حالت میں دو اونٹ کے بچوں کے ساتھ شکار پر نکلا، وہ سواری پر چڑھا تو اس کے سامنے ایک جنگلی وحشی گدھی تھی جس پر اس نے بندر سوار کر رکھا تھا۔ وہ گدھی کو بھگانے لگا اور کہنے لگا:

’’اے ابو خلف (مراد بندر)! خود کو بچانے کی کوئی تدبیر کر لے۔‘‘

’’اگر تو مر جائے تو اِس (گدھی) پر کوئی تاوان نہیں ہو گا۔‘‘

’’اِسی دوران یزید اپنے گھوڑے سے گر پڑا اور اس کی گردن ٹوٹ گئی۔‘‘

یزید ملعون کی تعریف کرنے پر حضرت عمر بن عبد العزیز کا اِقدام

حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنی مجلس میں یزید کی تعریف کرنے والے کو کوڑوں کی سزا دی۔ نوفل بن ابی فرات بیان کرتے ہیں:

كُنْتُ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيْزِ فَذَكَرَ رَجُلٌ يَزِيْدَ، فَقَالَ: قَالَ أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ يَزِيْدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ: تَقُوْلُ: أَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ، فَأَمَرَ بِهِ، فَضُرِبَ عِشْرِيْنَ سَوْطًا.

ابن حجر الهيتمي في الصواعق المحرقة،جلد 2، ص 633-634

’’میں حضرت عمر بن عبد العزیز کے پاس تھا کہ وہاں ایک آدمی نے یزید کا ذکر چھیڑا اور کہا: امیر المومنین یزید بن معاویہ نے (یوں) کہا تھا، انہوں نے فرمایا: تو اس (یزید) کو امیر المومنین کہتا ہے! انہوں نے اس شخص کے متعلق حکم صادر فرمایا تو اسے بیس کوڑے مارے گئے۔‘‘

اِس سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز نے اپنے دورِ حکومت میں یزید کی تعریف کرنے یا اُسے اچھے الفاظ میں یاد کرنے والے کے لیے ریاستی قانون میں باقاعدہ سزا مقرر کر رکھی تھی۔

حاصلِ کلام

یزید بن معاویہ کی فتنہ انگیز حکومت جس میں حرمین شریفین کی حُرمت کو پامال کیا گیا، روضۂ رسول ﷺ کی عظمت کو پسِ پشت ڈالا گیا، اور اہلِ مدینہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ اس بدبخت نے نہ صرف نواسۂ رسول ﷺ امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا بلکہ مدینہ طیبہ کو مباح قرار دے کر تین دن تک قتل و غارت، عصمت دری، اور لوٹ مار کی وہ داستان رقم کی جس پر آسمان بھی رویا۔ مسجدِ نبوی میں اذان اور نماز معطل ہوئی، مقامِ حرّہ پر اہلِ مدینہ کا خون بہایا گیا، اور کعبۃ اللہ پر منجنیقوں سے سنگ باری کر کے اس کے غلاف کو جلا دیا گیا۔ یزید کی فسق و فجور بھری زندگی اور عبرتناک موت گواہ ہے کہ جو شخص دین و حرمتِ رسالت پر حملہ آور ہو، وہ تاریخ میں رسوائی، ذلت اور لعنت کا نشان بن کر رہ جاتا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز جیسے عادل حکمران کا یزید کی تعریف پر سزا دینا اس بات کا اعلان ہے کہ یزید کی تعریف ایمان کے منافی اور حق کے مقابل باطل کا ساتھ ہے۔

بلاگ: ڈاکٹر محمد اِقبال چشتی (ریسرچ اسکالر، لائیو اَپڈیٹس سیل، سوشل میڈیا)

تبصرہ

ویڈیو

Ijazat Chains of Authority
Top