دی کریسنٹ کالج کے زیرِاہتمام سالانہ مقابلۂ حسنِ قرأت و نعت، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی خصوصی شرکت
مسلم نوجوان جدید فتنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے قرآن و سنت اور علم و تحقیق سے اپنا تعلق مضبوط کریں: پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
دی کریسنٹ کالج شادمان لاہور کے زیرِاہتمام امین آڈیٹوریم میں سالانہ مقابلۂ حسنِ قرأت و نعت نہایت پُروقار انداز میں منعقد ہوا، جس میں مہمانِ خصوصی پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری (صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل و ڈپٹی چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور) تھے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے ایمان کے تحفظ کی ضرورت اور نوجوانوں کو درپیش فکری و اعتقادی چیلنجز پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ربیع الاول کا بابرکت مہینہ ہمیں سیرتِ نبوی ﷺ سے وابستگی اور دین کی روشنی کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کا پیغام دیتا ہے۔ آج امتِ مسلمہ کو لامذہبیت اور دہریت کے خطرات کا سامنا ہے، جو پہلے مغرب میں پروان چڑھے اور اب سوشل میڈیا کے ذریعے مسلم معاشروں میں بھی سرایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جب زبان پر مذہب کے خلاف منفی گفتگو آئے تو بالآخر وہ خدا کے وجود کے انکار تک جا پہنچتی ہے۔ بعض لوگ روحانی عوامل کو مانتے ہیں مگر دین کے عقائد و شعائر سے انکار کرتے ہیں، یہ بھی اسی فتنے کا شکار ہیں۔ ایسے رجحانات کا جواب صرف علم و تحقیق اور علمی استدلال کے ذریعے دیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انسانی تاریخ کے ریکارڈ میں کسی مذہب نے خدا کے وجود کا انکار نہیں کیا۔ حتیٰ کہ ہندو ویدوں میں بھی ایک کتاب کا نام ہی "خدا کی تلاش" ہے۔ لامذہبیت کا فتنہ محض جدید دور کی پیداوار ہے جو غیر محسوس انداز میں پھیلایا جا رہا ہے۔ اسلام اگرچہ آج زوال کا منظر پیش کر رہا ہے، لیکن ایک طویل عرصے تک اس نے دنیا کو ترقی کی نئی راہیں دکھائیں۔ اسلام کبھی دقیانوسی نہیں رہا، اصل مسئلہ اس کے ماننے والوں کی کمزوری اور فکری زوال ہے۔ کسی ملت کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ جنگوں سے نہیں بلکہ فکر و نظر کی پختگی سے ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے کہا کہ ہم دوسروں کی من گھڑت روایات کو اسلام پر لاگو کر رہے ہیں، جو کسی طور دانشمندی نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہدایت کے چار بنیادی ذرائع عطا کیے ہیں: قرآنِ مجید، احادیثِ نبوی ﷺ، انسانی روح جو قرآن کی تعلیمات کی گواہی دیتی ہے، اور انسانی جینز، جسے سائنس بھی تسلیم کر رہی ہے۔ معروف سائنسدان ڈین ہیمر 2004ء نے اپنی کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی جین میں ایک ایسا عنصر موجود ہے جسے اس نے "God Gene" کہا، جو انسان کو خدا کی تلاش پر مجبور کرتا ہے۔
قرآنی اعجاز کے سائنسی پہلوؤں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سورج اور چاند اپنے مقررہ مدار سے معمولی سا ہٹ جائیں تو نظامِ شمسی تباہ ہو جائے گا، اور قرآن نے یہ حقیقت صدیوں پہلے بیان کی تھی۔ سائنس آج بتاتی ہے کہ زمین پر 71 فیصد پانی اور 29 فیصد خشکی ہے، جبکہ قرآن میں "زمین" کا لفظ 13 مرتبہ اور "پانی" کا لفظ 32 مرتبہ آیا ہے، یہ فیصدی تناسب عین وہی ہے جو سائنس آج پیش کر رہی ہے۔ قرآن پہاڑوں کو میخوں سے تشبیہ دیتا ہے اور آج سائنس نے یہ حقیقت آشکار کی کہ پہاڑوں کی زمین میں جڑیں ان کی ظاہری بلندی سے کئی گنا زیادہ گہری ہیں۔ اسی طرح سورۃ الحدید میں بیان ہے کہ لوہا زمین پر نازل کیا گیا، اور سائنسی تحقیق اس کی تصدیق کرتی ہے۔ قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ہر جاندار کو پانی سے پیدا کیا گیا، اور آج حیاتیات بتاتی ہے کہ ہر جاندار کے خلیے میں تقریباً 70 فیصد پانی ہوتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے فرعون کے غرق ہونے اور اس کی لاش کے محفوظ رہنے کے سائنسی و تاریخی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 1898ء میں مصر میں کھدائی کے دوران ایک ممی برآمد ہوئی جو بعد ازاں قاہرہ منتقل کی گئی۔ 1975ء میں ڈاکٹر مورس نے تحقیق کے بعد لکھا کہ یہ فرعون کی لاش ہے، لیکن سوال یہ تھا کہ سمندر سے نکال کر کس نے اسے محفوظ کیا؟ اس سوال کا جواب اُسے قرآن سے ملا جب اس نے قرآن کی سورۃ یونس میں اس واقعے کو پڑھا تو حیرت زدہ ہو کر اسلام قبول کرلیا۔
پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے طلبہ کو تلقین کی کہ اگر وہ اپنے عقائد کو مضبوط کر لیں تو کوئی طاقت انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ انہوں نے مطالعہ، تدبر اور قرآن و سنت سے مضبوط تعلق قائم رکھنے پر زور دیا اور کہا کہ دینِ اسلام امن، انصاف اور فلاحِ انسانیت کا دین ہے، اس میں کوئی تضاد نہیں۔
تقریب کے اختتام پر اُنہوں نے کالج انتظامیہ کے اس علمی و فکری اقدام کو سراہا اور توقع کی کہ یہ ادارہ آئندہ بھی طلبہ کی فکری، اخلاقی اور روحانی تربیت کے لیے اسی جذبے سے خدمات سرانجام دیتا رہے گا۔
اس پُروقار تقریب میں وائس پرنسپل میجر (ر) عباد الرحمن، سید عباس زیدی، اسامہ عدنان، پروفیسر ریحان خان سعیدی، صدر منہاجینز محمد شاہد لطیف، کرنل (ر) خالد، سردار الیاس ڈوگر، ملک امتیاز حسین اعوان، اساتذہ کرام، طلبہ و طالبات اور دیگر معزز مہمانان گرامی کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
تبصرہ