قائد محترم اور کارکنان تحریک کا باہمی تعلق
شیخ زاہد فیاض
قائد محترم اور کارکنان تحریک کے باہمی تعلق کو وسیع پیمانے پر سمجھنے کے لئے اس کو درج ذیل تین جہات کے حوالے سے جاننا ضروری ہے۔
- قائد کا کارکنان کے ساتھ تعلق
- کارکنان کا قائد محترم کے ساتھ تعلق
- ان دونوں رشتوں کا باہمی تعلق
1۔ قائد کا کارکنان کے ساتھ تعلق
کارکنان کے ساتھ قائد محترم کا تعلق ایک قائد کا بھی ہے۔ ۔ ۔ روحانی پیشوا کا بھی ہے۔ ۔ ۔ روحانی باپ کا بھی ہے۔ ۔ ۔ استاد کا بھی ہے۔ ۔ ۔ مربی کا بھی ہے۔ ۔ ۔ الغرض قائد محترم کی شخصیت کے جس بھی پہلو کو لیا جائے وہ اپنے کارکنان کے لئے سراپا محبت و شفقت ہیں۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے جہاں اپنے کارکنان کے اخلاق و اعمال کو سنوارے کے لئے اپنے قول، فعل کے ذریعے تربیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ان کے عقائد درست کرتے ہیں۔ ۔ ۔ تزکیہ نفس و تصفیہ باطن کے ذریعے ان کے قلوب و ارواح کو سنوارتے ہیں۔ ۔ ۔ اللہ رب العزت اور آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ سے ان کے حبّی اور عملی تعلق کو قائم کرتے ہیں۔ ۔ ۔ اخلاقیات درست کرتے ہیں۔ ۔ ۔ احوال و اعمال کی اصلاح کرتے ہیں۔ ۔ ۔ وہاں اپنے کارکنان کے دنیاوی مسائل و مشکلات کو بھی اُسی طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح اپنے ذاتی مسائل و مشکلات کو محسوس کرتے ہیں۔ ۔ ۔ کارکنان کے مسائل کے حل کے لئے نہ صرف دعا فرماتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اُن مسائل و مشکلات سے نکلنے کی احسن تدبیر بھی فرماتے ہیں۔ ۔ ۔ جو قربت میں ہوں ان کو بعض اوقات ڈانٹ کر بھی اصلاح کرتے ہیں مگر کبھی دل سے ناراض نہیں ہوتے۔ کارکنان کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہیں اور ہر ممکنہ کوشش کے ذریعے اسے حل کرتے ہیں۔
ہم نے آج تک قائد محترم کی کوئی ایسی دعا نہیں دیکھی جس میں تحریک کے رفقاء و وابستگان کے لئے دعا نہ کی ہو۔ کوئی بھی مرکزی قائد یا عام کارکن ان سے بات کرے خواہ تنظیمی اجلاسز میں یا ذاتی تو اس کی بات کو غور سے سنتے ہیں۔ ۔ ۔ ہمیشہ دل جوئی فرماتے ہیں دل آزاری نہیں کرتے۔ عیب پوشی فرماتے ہیں۔ ۔ ۔ دلوں کو جوڑتے ہیں۔ ۔ ۔ اپنی ذاتی، تحریکی، تنظیمی، علمی، تحقیقی، تجدیدی مصروفیات کے ساتھ ساتھ دنیا کے 80 ممالک بشمول پاکستان کے کارکنان کی طرف ہمہ وقت متوجہ رہتے ہیں اور روحانی فیض سے مستفید فرماتے ہیں الغرض اللہ رب العزت کی جانب سے شیخ الاسلام کی شخصیت امت مسلمہ کے لئے ایک نعمت اور سرمایہ صد افتخار ہے۔
2۔ کارکنان کا قائد محترم کے ساتھ تعلق
کارکنان کا اپنے قائد کے ساتھ تعلق بھی محبت و الفت کی ڈوری سے بندھا ہے۔ تحریک کی 27 سالہ تاریخ کے اندر ہزارہا کارکنان کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جو قائد محترم کی محبت میں، اس عظیم مشن کے لئے قائد کے ایک اشارے پر اپنا سب کچھ قربان کرچکے۔ کارکنان کا قائد کے ساتھ یہ تعلق 4 جہات پر مشتمل ہے آیئے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔
- قائد کی ذات کے ساتھ تعلق
- قائد کی نسبت کے ساتھ تعلق
- قائد کے مشن کے ساتھ تعلق
- قائد کے کارکنان کے ساتھ تعلق
i۔ قائد کی ذات کے ساتھ تعلق
کارکن کا اپنے قائد کی ذات کے ساتھ محبت، عشق اور جنون کا تعلق ہونا چاہئے۔ ۔ ۔ قائد کا نام آئے تو آنکھیں بھر آئیں۔ ۔ ۔ قائد کی آواز سنیں یا زیارت کریں تو دل میں ٹھنڈک محسوس کریں۔ ۔ ۔ جب دعا کے لئے کسی کارکن کے ہاتھ اٹھیں تو دل سے اپنے قائد کی درازی عمر کے لئے دعا نکلے۔ ۔ ۔ الغرض ہمہ وقت ایک کارکن کے دل اور روح کی تار اپنے قائد کے ساتھ جڑی رہے تو پھر کارکن کا اپنے قائد کے ساتھ ذاتی تعلق برقرار رہتا ہے، اس کے لئے قربت ضروری نہیں۔ ہم نے دیکھا ہے بہت سے قربت میں رہنے والے استقامت سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ ہزارہا کارکنان جنہیں آج تک شاید مصافحہ کرنا بھی نصیب نہ ہوا ہو وہ مشن پر قائم بھی ہیں اور فیض بھی پارہے ہیں۔
الحمدللہ تحریک کے جملہ کارکنان کا قائد کی ذات کے ساتھ تعلق اسی نہج پر ہے اللہ تعالیٰ ہمیں اس میں استقامت دے۔ ۔ ۔ کیونکہ یہی وہ شخصیت ہے جس نے ہمیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و ادب سکھایا۔ ۔ ۔ جس نے ہمیں دنیاوی محبت سے نکال کر محبتِ الہی کا مسافر بنایا۔ ۔ ۔ جس نے ہماری آنکھوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت میں برسنا سکھایا۔ ۔ ۔ جس نے ہماری زندگیوں کوغلبہ دین حق کی بحالی جیسے عظیم مقصد سے آشنا کیا۔ ۔ ۔ جس نے ہمیں قرآن و حدیث کا فہم دیا۔ ۔ ۔ جس نے ہمیں اولیاء اللہ کی محبت کا اسیر بنایا۔ میں یہ بات بیان کرتے ہوئے بھی کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتا کہ اگر میرا تعلق اس شخصیت سے نہ ہوتا تو میں نہ جانے کن دنیاوی بداعمالیوں کا شکارہوجاتا، صرف میں ہی نہیں بلکہ تحریک سے وابستہ ہر نوجوان کے دل کی یہی آواز ہے کہ ہماری شتر بے مہار جیسی زندگیوں کو شیخ الاسلام عظیم مقصد اور نصب العین سے ہمکنار نہ فرماتے تو ہم دنیا و آخرت دونوں میں رسوا ہوجاتے۔
ii۔ قائد کی نسبت کے ساتھ تعلق
ایک کارکن کا تعلق اپنے قائد کی نسبت کے ساتھ بھی پختہ ہونا چاہئے۔ یعنی قائد کی اولاد اور فیملی کے ساتھ تعلق ادبی وحبی بھی مضبوط ہونا چاہئے۔ قائد محترم کی اولاد بحمدللہ اپنے عظیم باپ کی زیر تربیت رہ کر آج علمی، فکری، روحانی، اخلاقی اعتبار سے ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے۔ اس عظیم مشن کی قیادت کے وہ اہل ہیں اور ان شاء اللہ مستقبل میں اس مصطفوی مشن کے فروغ اورکامیابی میں اہم کردار انہی کا ہوگا کیونکہ ان کے اندر ابھی سے وہ خوابیدہ صلاحیتیں دیکھی جاسکتی ہیں جو انھوں نے اس عظیم قائد سے میراث میں حاصل کی ہیں۔
iii۔ قائد کے مشن کے ساتھ تعلق
اگر ایک کارکن کا تعلق قائد کی ذات کے ساتھ بھی ہو، فیملی کے ساتھ بھی ہو مگر قائد کے مشن کے ساتھ نہ ہو تو وہ پہلے دو دعوؤں میں بھی سچائی نہیں رکھتا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس مشن کی خاطرہمارے قائد نے ساری زندگی وقف کردی اگر ہمیں نہ اس مشن کی فکر ہو، نہ ٹائم دیں، نہ توانائیاں خرچ کریں، نہ سوچ بچار کریں یعنی مشن کے لئے کچھ بھی نہ کریں۔ بس قائد کی محبت اور تعلق کا خالی دم بھرتے رہیں تو ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہئے کہ جس قائد کی ذات سے محبت کا دم بھرتے ہیں اس کے مشن کے لئے بھی اپنی بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتے رہیں۔ آئیے قائد ڈے کے اس پر مسرت لمحات میںاس مشن کے لئے اپنی صلاحیتوں کو صرف کرنے کا عزم کریںاور اس بات کا عہد کریں کہ وہ شیخ الاسلام کی قیادت میںفروغ وتبلیغ حق، احیاء و تجدیددین، اصلاح احوال اور اقامت اسلام کے اس مصطفوی مشن کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا اور اپنا’’ آج‘‘ اسلام اور مسلمانوں کے ’’کل‘‘ کے لئے قربان کردے گا۔
iv۔ قائد کے کارکنان کے ساتھ تعلق
ہمیں قائد محترم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اس عظیم مشن کے عظیم کارکنان کے ساتھ بھی اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہئے۔ ۔ ۔ ان سے پیار کریں۔ ۔ ۔ محبت سے ملیں۔ ۔ ۔ شفقت کی نگاہ سے دیکھیں اور شفقت کریں۔ ۔ ۔ قائد کے کارکن اور سپاہی پر نظر پڑے تو سینے میں راحت محسوس کریں۔ ۔ ۔ ایک دوسرے کی عزت کریں۔ ۔ ۔ جو کارکن کی عزت نہیں کرتا اس سے محبت نہیں کرتا۔ ۔ ۔ عیب پوشی نہیں کرتا وہ خود سوچ لے کہ وہ قائد اور مشن کے ساتھ تعلق کے دعوے میں کتنا سچا ہے۔ کارکنان کا باہمی محبت و پیار بھرا تعلق اس تحریک کی مضبوطی کا باعث بنے گا، جس سے اعتماد کی فضا پیدا ہوگی اور ماحول خوشگوار ہو گا۔
کارکنان تحریک کا یہ تعلق صرف قلبی حد تک نہ ہو بلکہ عملی طور پر بھی کارکنان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے نظر آئیں۔ کارکنان کایہ رشتہ ان کے خاندانی تعلقات سے بھی کہیں بڑھ کر مضبوط و توانا ہو۔
3۔ ان دونوں رشتوں کا باہمی تعلق
اب یہ دونوں رشتے یعنی ’’قائد کا کارکنان سے تعلق اور کارکن کا قائد سے تعلق‘‘ مضبوط تب رہتے ہیں۔ جب ہماری توجہ اور سوچ اس طرف رہے اور ہمیں ان دونوں رشتوں کا احساس رہے۔ بحمداللہ! اللہ پاک نے ہمیں وہ عظیم قائد عطا کیا ہے کہ ان کی جانب سے تو شفقتوں، توجہات اور فیض کی کبھی کمی نہیں رہی، کمی صرف ہماری طرف سے ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ فیض ہمیں بھی ملتا رہے تو پھر ان کے ہر حکم پر عمل کریں۔ اگر ہم قائد کے احکامات کی نافرمانی بھی کریں اور فیض میں کمی آنے کا شکوہ بھی کریں تو پھر یہ زیادتی ہوگی۔ ادھر سے فیض یا توجہ کم نہیں ہوتی مگر ہم تک حکم عدولی کے باعث فیض نہیں پہنچتا یہ نظام قدرت ہے۔
الغرض قائد اور کارکنان کا باہمی تعلق ہی وہ طاقت ہے جس کے ذریعے اس مشن کے عظیم کارکنان سالہا سال سے قربانیوں کی ایک تاریخ رقم کرتے چلے آرہے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے چلے جائیں گے۔
تبصرہ