تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ’’قومی امن کانفرنس‘‘ سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا ٹیلی فونک خطاب
تحریک منہاج القرآن کے زیراہتمام ہونے والی ’’قومی امن کانفرنس‘‘ جس میں ملک بھر کی نمائندہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین اور رہنماؤں نے شرکت کی کانفرنس سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت ہے کہ اسلام دین محبت و امن ہے۔ اسے یہاں دلائل سے ثابت کرنے کی ضرورت اس لئے بھی نہیں کہ ہمارے دینی مصادر اور ہماری چودہ سو سالہ تاریخ خود اس حقیقت پر سب سے بڑی شہادت ہے۔ قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک جان کی حفاظت پوری انسانیت کو زندہ رکھنے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ہمارے پیغمبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ اس کے ہاتھ اور اس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ گویا ناحق جان تلف کرنا تو کجا بلا وجہ بد کلامی کا مرتکب ہونے والا بھی حقیقی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔
آج پوری دنیا میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گرد نہ صرف امن کے دشمن ہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کے خلاف امن پسند قوتوں کو جدوجہد کرنا چاہئے مگر سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کو ہوا کس نے دی؟ یہ محاذ کس نے کھولا؟ آج سے دس سال قبل تک تو یہ صورتحال ہمارے ہاں نہیں تھی۔
پھر یہ دہشت گردوں کے لشکر اچانک کہاں سے نمودار ہونے لگے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما عالمی قوتوں نے خود ہی یہ بت گھڑ لیا ہے اور اب قیام امن کے نام پر پوری دنیا کو تہذیبی تصادم میں جھونکا جا رہا ہے۔ اس لئے امن قائم کرنے کے لئے دہشت گردی کی مذمت ہی کافی نہیں بلکہ سب سے پہلے امن کے حقیقی دشمنوں کی شناخت کی جانا چاہئے۔ اس ضمن میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات فاٹا، وزیرستان اور سوات وغیرہ پر امن سیدھے سادھے اور دیندار مسلمانوں کے علاقے ہیں یہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی میسر نہیں۔ اکثریت تنگ دست محنت کش لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ اچانک دو تین سالوں میں یہاں کیا انقلاب آگیا ہے کہ ان لوگوں کے اندر ملک دشمنی کے جراثیم پیدا ہوگئے وہ سب لوگ پاکستانی فوج اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف صف آراء ہو چکے ہیں اور انہیں اندھا دھند قتل کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اس بے سروسامانی کے ماحول میں اس قدر جدید جنگی سہولتیں مہلک ہتھیار اور عسکری مہارت کہاں سے آگئی؟ کون ان دہشت گردوں کو ٹریننگ، اسلحہ اور وافر سرمایہ فراہم کر رہا ہے؟ اب جبکہ یہ بات بے شمار حقائق کی بنا پر کھل کر کہی جارہی ہے کہ اس دہشت گردی کو بیرونی طاقتیں سپورٹ کر رہی ہیں۔ اگر واقعتًا ایسا ہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہماری سابقہ اور موجودہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں کیا کرتی رہی ہیں؟ انہوں نے اس ناسور کو کیوں بڑھنے کا موقع دیا؟ امریکہ آئے روز ڈرون حملوں کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو مار رہا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ حملے ایک آزاد اور خود مختار ملک کی بقا اور سلامتی پر حملے ہیں۔ حکومت نے امریکہ کو اس سنگین سرحدی خلاف ورزڑی کی اجازت کیوں دی اور کس فورم پر دی؟ فرض کریں یہ حملے خطرناک اور غیر ملکی دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لئے کئے جاتے ہیں تو آج تک ان کی کوئی تفصیل پریس میں کیوں نہیں آئی؟
اسی طرح ہماری آرمی ہر روز سو پچاس شر پسندوں کی ہلاکت کے دعوے کرتی ہے مگر آج تک ان کی پہچان بھی ممکن نہیں ہو سکی ان دو طرفہ حملوں سے مقامی آبادی کے بے بس لوگ لقمہ اجل بنتے ہیں اور بقیہ زندہ بچ جانے والے در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ آخر یہ کونسا امن قائم ہو رہا ہے؟ یہاں ایک بڑا سوالیہ نشان یہ بھی ہے کہ ا مریکہ اگر ان لوگوں کو ختم کرنا چاہتا ہے تو بہت سے لوگ جو حقیقی معنوں میں شرپسندی پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے امریکہ کو کئی بار دھمکیاں بھی دی ہیں انہیں نشانہ کیوں نہیں بنایا جاتا؟ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان کے بے شمار شہریوں کو محض شک کی بناء پر اٹھا لیا گیا ہے مگر افغانستان سمیت ان سرحدی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ان لوگوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے جو کھلے عام عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کے نیم خواندہ کمانڈر میڈیا کو بریفنگ بھی دیتے ہیں دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کے منصوبوں کا انکشاف بھی کرتے ہیں اور سیٹلائٹ کے اس دور میں وہ پکڑے بھی نہیں جاتے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی کھٹکتے ہیں۔ ان سب سوالوں سے بڑھ کر تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جتنی طویل ہو رہی ہے دہشت گردی ختم ہونے کی بجائے تیزی سے پھیل رہی ہے۔
پہلے یہ جنگ افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آئی وہاں خانہ جنگی کے بعد اب اس کا رخ کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور آرمی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہماری مساجد، امام بارگاہیں، مقدس مقامات، اولیاء کرام کے مزارات، تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی محفوظ نہیں رہے۔
یقیناً یہ وقت ہمارے لئے بڑا نازک اور افسوسناک ہے مگر محض افسوس کرنے یا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے سے ہم اس حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ہماری سلامتی پر یہ حملے بیرونی طاقتوں کی طرف سے ہوں یا اندرونی شرپسندوں کی طرف سے ہمیں اس وقت سنجیدہ قومی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بنیادی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ اس نے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے متفقہ قرار داد بھی منظور کر رکھی ہے، ہماری سیاسی، مذہبی اور فوجی قیادت کو بہت چوکنا رہنے اور فیصلہ کن عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔
- ہمیں از سر نو خارجہ پالیسی وضح کرنی چاہئے جس میں دوست اور دشمن کی واضح نشاندہی ہونی چاہئے۔
- ہمیں بھارت، افغانستان اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ قومی نفع و نقصان کی روشنی میں تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔
- ہماری بقاء اور سلامتی کا تحفظ باہر سے آ کر کوئی بھی نہیں کرے گا حتی کہ کوئی اسلامی ملک بھی کام نہیں آئے گا اس لئے اپنی فکر خود ہی کرنی پڑے گی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔
- ہمیں سفارتی ذرائع کو بھرپور استعمال میں لاتے ہوئے قیام امن کی کاوشیں تیز کرنا ہوں گی۔
- اس وقت طالبان ایک مخصوص مذہبی رجحان کے نمائندہ اور شناخت بن چکے ہیں۔ پاکستان کے بعض علماء انہیں اپنا Brainchild بھی کہتے ہیں اس لئے ان پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر انہیں دین کا حقیقی تصور سمجھائیں تاکہ وہ دین و ملت کے عالمی دشمنوں کے آلہ کار بن کر نہ تو اسلام کو بدنام کریں اور نہ ہی واحد ایٹمی اسلامی مملکت کی تباہی میں حصہ دار بنیں۔
تبصرہ